عطاء سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھنے کے بعد آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے پھر آگے بڑھتے اور چار رکعتیں پڑھتے اور جب مدینے میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کر اپنے گھر واپس آتے اور (گھر میں) دو رکعتیں ادا کرتے، مسجد میں نہ پڑھتے، ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1130]
إذا كان بمكة فصلى الجمعة تقدم فصلى ركعتين ثم تقدم فصلى أربعا وإذا كان بالمدينة صلى الجمعة ثم رجع إلى بيته فصلى ركعتين ولم يصل في المسجد فقيل له فقال كان رسول الله يفعل ذلك
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1130
1130۔ اردو حاشیہ: ➊ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین دین کے امین تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع تھے، ان کے اعمال پر نظر رکھی جاتی تھی اور تفصیل و دلیل بھی پوچھی جاتی تھی۔ ان کے بعد علمائے امت اس امانت کے وارث ہیں، لوگ ان کے کردار کو دینی نظر سے دیکھتے اور دیکھنا پسند کرتے ہیں، تو چاہیے کہ طلبہ دین اور علمائے شریعت صحیح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا معمول بنائیں تاکہ لوگوں کو صحیح عملی نمونہ ملے اور اس کا اجر اللہ عزوجل ہی کے ہاں ملنے والا ہے۔ ➋ عام مسلمانوں کے بھی ذمے ہے کہ مسائل و اعمال میں قرآن و سنت صحیحہ کی دلیل طلب کریں کیونکہ علماء کسی صورت بھی معصوم نہیں ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1130