عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم (بڑھاپے کی وجہ سے) جب بھاری ہو گیا تو تمیم داری رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے لیے ایک منبر نہ تیار کر دوں جو آپ کی ہڈیوں کو مجتمع رکھے یا اٹھائے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، کیوں نہیں!“، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو زینوں والا ایک منبر بنا دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1081]
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 1081
فوائد و مسائل: اس حدیث میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے لئے مجازاً «عظام» کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسی لیے محدث البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «فعلمت منه أنهم كانوا يطلقون ”العظام“، ويريدون البدن كله، من باب إطلاق الجزء وإرادة الكل، كقوله تعالى * (وقرآن الفجر) * أي: صلاة الفجر. فزال الإشكال والحمد لله» ” مجھے اس حدیث سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عرب لوگ لفظ «عظام» بول کر پورا جسم مراد لیتے ہیں۔ یہ جز سے کُل کو مراد لینے کے قبیل سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «وَقُرْآنَ الْفَجْرِ»[17-الإسراء:78] یہاں فجر کے قرآن سے مراد نماز فجر ہے۔ الحمد اللہ اشکال زائل ہو گیا ہے۔“[سلسلة الاحاديث الصحيحة للالباني: 313]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1081
1081۔ اردو حاشیہ: اس سے پہلے گزرا کے لکڑی کا یہ منبر ایک غلام نے بنایا تھا اور اس روایت میں ہے کہ تمیم داری نے اسے بنایا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے پہلی روایت کو زیادہ قوی قرار دیا ہے۔ اور دوسرا احتمال یہ بیان کیا ہے کہ اس کے بنانے میں یہ سارے ہی کسی نہ کسی طریقے سے شریک رہے ہوں۔ علاوہ ازیں اس روایت میں ہے کہ یہ منبر دو سیڑھیوں پر مشتمل تھا جبکہ دوسری روایت میں تین سیڑھیوں کا ذکر ہے، تو بات یہ ہے کہ دو سیڑھیوں کے ذکر کرنے والے راوی نے وہ تیسری سیڑھی شما ر نہیں کی۔ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوتے تھے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے: [فتح الباري والعون]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1081
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3583
3583. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کھجور کے تنے کے سہارے خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب منبر بنایا گیا توآپ اس پر تشریف لے گئے اور تنے نے رونا شروع کردیا۔ آپ اس کے پاس آئے اور اس پر دست شفقت پھیرا۔ عبدالحمید نے کہا: ہمیں عثمان بن عمر نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہمیں معاذ بن علاء نے نافع سے یہ بیان کیا اور ابو عاصم نے ابن ابورواد کے ذریعے سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3583]
حدیث حاشیہ: حافظ ابن حجر ؒ نے کہا کہ معلوم نہیں یہ عبدالحمید نامی راوی کون ہیں؟ مزی نے کہا کہ یہ عبدبن حمید حافظ مشہور ہیں، مگر میں نے ان کی تفسیر اور مسنددونوں میں یہ حدیث تلاش کی تو مجھ کو نہیں ملی۔ البتہ دارمی نے اس کو نکالا ہے، عثمان بن عمر سے آخر تک اسی اسناد سے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3583