الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
4. باب كَرَاهِيَةِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ عِنْدَ قَضَاءِ الْحَاجَةِ
4. باب: قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 10
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ أَبِي مَعْقِلٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَتَيْنِ بِبَوْلٍ أَوْ غَائِطٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَأَبُو زَيْدٍ هُوَ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ.
معقل بن ابی معقل اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب اور پاخانہ کے وقت دونوں قبلوں (بیت اللہ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوزید بنی ثعلبہ کے غلام ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 10]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الطھارة 17 (319)، (تحفة الأشراف: 11463)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/210) (منکر)» ‏‏‏‏ (سند میں واقع راوی ”ابوزید“ مجہول ہے، نیز اس نے ”قبلتین“ کہہ کر ثقات کی مخالفت کی ہے)

قال الشيخ الألباني: منكر

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (319)
قال البوصيري في زوائد ابن ماجه: ’’أبو زيد مجهول الحال فالحديث ضعيف به‘‘
وضعفه الحافظ في فتح الباري (1/ 246)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 13

   سنن أبي داودأن نستقبل القبلتين ببول أو غائط
   سنن ابن ماجهنهى رسول الله أن نستقبل القبلتين بغائط أو ببول

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 10 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 10  
فوائد و مسائل
➊ یہ روایت ضعیف ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے منکر کہا ہے تاہم جن کے نزدیک صحیح ہے انہوں نے اس میں توجیہ کی ہے مثلاً علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حکم کی جو توجیہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ جو شخص مدینہ منورہ میں بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی طرف منہ کرے گا وہ لازماً بیت المقدس کی طرف پشت کرے گا۔ دوسری توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے اس لیے اس کا احترام بھی ضروری ہے اور یہ نہی تنزیہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 10