سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور نہ خریداری کی نیت کے بغیر بولی میں اضافہ کرو اور نہ آپس میں بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔“[مسند الشهاب/حدیث: 939]
تخریج الحدیث: «صحيح، ومسلم: 2564، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1040، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1056، 1057، 1058، 1059، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7254، 7368»
وضاحت: تشریح: - اس حدیث مبارک میں انسانی معاشرے میں پائے جانے والی چار خطرناک بیماریوں سے بچنے کا حکم فرمایا گیا ہے: ① حسد:۔۔۔ حسد کا مطلب ہے کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر جلنا اور یہ خواہش کرنا کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے، مجھے ملے یا نہ ملے، لیکن اس کے پاس نہ رہے، اس چیز کا نام حسد ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سابقہ امتوں کی بیماری بتلایا ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے: ”تمہارے اندر پہلی امتوں والی بیماری حسد اور بغض سرایت کر گئی ہے، آپس میں بغض رکھنا مونڈنے والی بیماری ہے، بالوں کو مونڈنے والی نہیں بلکہ دین کو مونڈنے والی (یعنی ختم کر دینے والی) ہے۔“[ترمذي: 2510] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسد نہ کرنے والے کو افضل الناس قرار دیا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: لوگوں میں افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہر وہ آدمی جو مخموم القلب اور زبان کا سچا ہو۔“ انہوں نے کہا: زبان کے سچے کو تو ہم جانتے ہیں لیکن مخموم القلب سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”پر ہیز گار، پاک باز جس (کے دل) میں نہ گناہ ہو، نہ بغاوت ہو، نہ بغض اور اور نہ حسد ہو۔“[ابن ماجه: 4216، صحيح] ② نجش:۔۔۔ نجش کا مطلب ہے کسی چیز کو فروخت کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر اس کی تعریف کرنا یا کسی چیز کی نیلامی کے وقت خود اسے خریدنے کا ارادہ نہ ہو اور خواہ مخواہ اس کی قیمت بڑھانے کے لیے زیادہ بولی لگانا تاکہ دوسرے کو وہ چیز مہنگی ملے، نجش کہلاتا ہے۔ چونکہ اس طرح حقیقی خریدار کو دھوکا دے کر نقصان پہنچایا جاتا ہے، اس لیے اس سے منع فرما دیا گیا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش سے منع فرمایا ہے۔ [بخاري: 2144] لیکن اگر کوئی شخص فی الواقع اس چیز کو خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لیے قیمت بڑھانا اور بولی دینا درست ہے۔ بعض تاجر ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے حریص ہوتے ہیں۔ کسی چیز کو خریدنے کا ارادہ نہ بھی ہو تو یونہی بولی دے کر چیز کی قیمت بڑھا دیتے ہیں اور فروخت کنندہ سے اس کے عوض کچھ رقم لے لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اور دوسری احادیث میں اس عمل سے منع فرما دیا۔ ③ بغض:۔۔۔۔ انسانی معاشرے میں پائی جانے والی ایک برائی کا نام بغض ہے۔ بغض دراصل دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان عداوت کی بنا پر دوسرے کے خلاف اپنے دل میں رکھتا ہے۔ بسا اوقات حسد اور بغض مترادف استعمال ہوئے ہیں تا ہم دونوں کے درمیان لطیف سا فرق ہے۔ حسد کا متضاد رشک ہے اور بغض کا متضاد محبت، حدیث میں بغض کے لیے «الشحنا» کا لفظ بھی آیا ہے۔ بغض ایسی بیماری ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی قیمت نہیں پاتے اور نہ ایسے آدمی کی بخشش ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ مشرک کے علاوہ ہر ایک کی بخشش کر دی جاتی ہے۔ سوائے ان دو آدمیوں کے جن کے درمیان کوئی بغض ہو۔ اللہ تعالیٰ ٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے: جب تک یہ دونوں صلح نہیں کر لیتے، ان کا معاملہ رہنے دو۔ اور یہ تین مرتبہ کہا جاتا ہے۔“[مسلم: 2565] چونکہ بغض انتہائی مذموم خصلت ہے، اس لیے اس سے منع فرمایا گیا، البتہ احادیث میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ اگر بغض و عداوت اللہ تعالیٰ ٰ کی خاطر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ④ تدابر:۔۔۔ ترابر کا مطلب ہے ایک دوسرے سے منہ موڑنا، اعراض کرنا اور قطع تعلق کرنا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں چوتھی معاشرتی برائی ”تدابر“ سے منع فرمایا۔ اگر کسی سے ناراضی ہو جائے تو اس سے تین دن سے زیادہ ناراض رہنا اور قطع کلامی کرنا جائز نہیں۔ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے روا نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے۔ وہ دونوں ملیں تو ایک دوسرے سے منہ پھیر لیں۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“[بخاري: 2077] اگر کسی نے کسی مسلمان بھائی سے قطع تعلق وقطع کلامی کی اور وہ اس حال میں مرگیا تو جہنم میں جائے گا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کو روانہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی رکھے، جس نے تین دن سے زیادہ قطع کلامی رکھی اور وہ اسی حال میں مر گیا تو جہنم میں جائے گا۔“[أبو داود: 4914، صحيح] ایک سال تک کسی سے قطع تعلقی رکھنا اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ سیدنا ابوخراش السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ ایک سال تک قطع کلامی رکھے تو یہ عمل اس کا خون بہانے کی مانند ہے۔“[أبو داود: 4915، صحيح] ۔(اسلام کے احکام و آداب، ص 250تا 253)