1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث401 سے 600
351. مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا هِيَ جَمْرٌ فَلْيَسْتَقِلَّ مِنْهُ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ
351. جس شخص نے لوگوں سے ان کے مال اس لیے مانگے کہ (اپنی) دولت میں اضافہ کرے تو درحقیقت وہ ایک انگارہ ہے اب (اس کی مرضی ہے) چاہے تو اس میں سے کم مانگلے یا زیادہ مانگ لے۔
حدیث نمبر: 525
525 - أَخْبَرَنَا أَبُو عُبَيْدٍ اللَّهِ شُعَيْبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْمِنْهَالِ أبنا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الرَّازِيُّ، ثنا مِقْدَامُ بْنُ دَاوُدَ الرُّعَيْنِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا هِيَ جَمْرٌ فَلْيَسْتَقِلَّ مِنْهُ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ» رَوَاهُ مُسْلِمٌ، عَنْ أَبِي كُرَيْبٍ، وَوَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَا: نا ابْنُ فُضَيْلِ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے لوگوں سے ان کے مال اس لیے مانگے کہ (اپنی) دولت میں اضافہ کرے تو درحقیقت وہ ایک انگارہ ہے اب (اس کی مرضی ہے) چاہے تو اس میں سے کم مانگلے یا زیادہ مانگ لے۔ اسے مسلم نے ابوکریب اور واصل بن عبدالاعلیٰ سے روایت کیا انہوں نے کہا: کہ ہمیں ابن فضیل نے اپنی سند کے ساتھ اسی کی مثل بیان کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 525]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1041، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3393، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1838، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7966، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7284، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6087، والبزار فى «مسنده» برقم: 9778، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10776»

وضاحت: تشریح: -
اس حدیث میں لوگوں سے بلاوجہ مانگنے کی مذمت فرمائی گئی ہے کہ جو شخص بلا ضرورت محض اپنا مال بڑھانے کی غرض سے لوگوں سے مانگتا ہے وہ حقیقت میں جہنم کی آگ کے انگارے مانگتا ہے اب آگے اس کی مرضی ہے کہ انگارے زیادہ مانگ لے یا کم۔ لوگوں سے بلاوجہ مانگنا کبیرہ گناہ ہے اور اس پر بڑی سخت وعیدیں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے حتی کہ جب روز قیامت وہ پیش ہوگا تو اس کے چہرے پر کوئی گوشت نہیں ہوگا۔ [بخاري: 174 مسلم: 1040]
ایک اور حدیث ہے کہ مانگنا خراش ہے، آدمی اس کی وجہ سے اپنے چہرے پر خراشیں ڈالتا ہے جو چاہے انہیں اپنے چہرے پر باقی رکھے اور جو چاہے انہیں ترک کر دے البتہ بادشاہ سے مانگنا یا کسی ایسی چیز کے بارے میں مانگنا جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہ جائز ہے۔ [أبو داود: 1639 ترمذي 681، صحيح]