زید بن اسلم کہتے ہیں کہ (واقعہ حرہ) کے فتنے کے دور میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ابن مطیع کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے لیے تکیہ منگوایا اور آپ کو مرحبا کہا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہارے پاس صرف اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں دوایسی باتیں بتاؤں جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے (امام کی) اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا روز قیامت اس کے لیے کوئی دلیل و حجت نہیں ہوگی اور جس نے جماعت سے دوری اختیار کی وہ جاہلیت کی موت مرا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 450]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1851، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4578، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 259، 402، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16709، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5486»
وضاحت: تشریح: - اس حدیث میں بھی جماعت سے دوری اختیار کرنے والے اور خلیفہ وقت کی بیعت توڑنے والے شخص کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ ”جس نے جماعت سے دوری اختیار کی وہ جاہلیت کی موت مرا۔“ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اہل السنہ والجماعہ کے منہج اور طریقے سے ہٹ کر چلا، اہل السنہ والجماعہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو عقیدہ توحید اور تمسک بالسنہ کو دین کی بنیاد مانتے ہیں، جن کا مسلک کتاب وسنت ہے۔ ان کے منہج اور طریقے سے ہٹ کر چلنے والا جاہلیت کی موت مرا یعنی اس کی موت اہل جاہلیت کی طرح گمراہی پر ہوگی۔ ایک حدیث میں ہے کہ ”جس نے جماعت سے ایک بالشت بھی دوری اختیار کی اس نے اپنی گردن سے اسلام کا طوق اتار پھینکا۔“(دیکھئے حدیث نمبر 448) دوسری حدیث میں ہے کہ ”جماعت (حقہ) کو لازم پکڑو کیونکہ دور رہ جانے والی اکیلی بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے“۔ [ابن خزيمه: 1386، صحيح] ”جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا روز قیامت اس کے لیے کوئی حجت نہیں ہوگی۔“ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے متفقہ خلیفہ کی ہر حال میں اطاعت کرو، معمولی معمولی باتوں کو بہانا بنا کر قانون شکنی کر کے لاقانونیت پیدا نہ کرو۔ حدیث میں ہے کہ ”جس نے اپنے امیر کے کسی کام کو ناپسند کیا تو اسے چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو شخص سلطان کی اطاعت سے ایک بال بھی نکلا وہ جاہلیت کی موت مرا“۔ [بخاري: 7053] دوسری حدیث ہے: ”بے شک عنقریب تم میرے بعد ایسے کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے۔“ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس سلسلے میں ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ فرمایا: ”انہیں ان کا حق ادا کرو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔“[بخاري: 7052] اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے نبی! یہ بتلائیے کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مسلط ہوں جو ہم سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں اور ہمارے حقوق ہمیں نہ دیں تو اس صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس سائل سے اعراض کیا، اس نے دوبارہ سوال کیا، آپ نے پھر اعراض کیا، پھر اس نے دوسری یا تیسری بار سوال کیا تو سیدنا اشعث بن قیسی رضی اللہ عنہ نے اسے کھینچ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو اور اطاعت کرو کیونکہ ان کا بوجھ ان پر ہے اور تمہارا بوجھ تم پر ہے۔“[مسلم: 1846] ایک اور حدیث ہے، سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم شر میں مبتلا تھے پھر اللہ ہمارے پاس اس خیر کو لے آیا، کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا: کیا اس شر کے بعد خیر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کیا: کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے پوچھا: اس کی کیا کیفیت ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے آئمہ ہوں گے جو میری ہدایت پر عمل نہیں کریں گے اور نہ میری سنت پر چلیں گے اور عنقریب ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کی طرح اور بدن انسانوں کی مانند ہوں گے۔“ راوی کہتا ہے: میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں ان کو پاؤں تو کیا کروں؟ فرمایا: ”امیر کے احکام سننا اور اس کی اطاعت کرنا خواہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی (احکام) سننا اور اطاعت کرنا۔“[مسلم: 1847]