محمد بن جعفر اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلا اللہ اسے جنت کے راستے پر چلائے گا۔ اور جسے اس کے علم نے پیچھے کر دیا اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکتا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: إسناده حسن،
وضاحت: تشریح: - مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو روز قیامت اس کے برے اعمال نے پیچھے کر دیا یعنی جنت سے محروم کر دیا اس کا حسب و نسب اس کے کسی کام نہیں آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ٰ کے ہاں فوز و فلاح کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے جس کے پاس یہ دو چیزیں ہیں وہ کامیاب ہے اور جو ان سے محروم ہے وہ نا کام ہے خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ اس سلسلے میں نوح علیہ السلام کی بیوی اور ان کے بیٹے، لوط علیہ السلام کی بیوی، ابراہیم علیہ السلام کے والد اور ابوجہل و ابولہب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ یہ سب لوگ نسبی طور پر نبیوں کے بہت قریب تھے لیکن ایمان اور عمل صالح نہ ہونے کی وجہ سے اخروی کامیابی سے محروم رہے۔ ان کے بر عکس فرعون کی بیوی اور اسی طرح سیدنا بلال حبشی، سلمان فارسی، سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ جیسے لوگ نبیوں کے ساتھ نسبی یا خاندانی تعلق نہ ہونے کے باوجود کامیاب ہو گئے اس لیے کہ ان کے پاس ایمان اور عمل صالح کی دولت تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی برادری کے سامنے صاف اعلان فرما دیا تھا، چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214)”اور اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرا ئیں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قریش کی جماعت! اپنی جانوں کو اللہ کے ہاتھ بیج ڈالو، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آوں گا، اے بنی عبد المطلب! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آوں گا۔ اے عباس بن عبد المطلب! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے رسول اللہ کی بیٹی (سیدہ)فاطمہ (رضی اللہ عنہا)! تم مجھے سے جس قدر چاہو (دنیا کا مال) مانگ لو میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آوں گا۔“[مسلم: 206]