سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے خاموشی اختیارکی وہ نجات پا گیا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 334]
وضاحت: تشریح: - آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی فصل الخطاب، جوامع الکلم اور جواہر الکلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میں معانی کے پوشیدہ سمندروں کی معرفت صرف اہل علم ہی کو حاصل ہو سکتی ہے۔ زبان کے خطرات بہت زیادہ ہیں اور ہر خطرہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے، اس کی آفات ان گنت ہیں، خطا، کذب، چغلی، غیبت، ریاء، شہرت، نفاق، فحش گوئی، جدال اور باطل میں انہمام وغیرہ سب آفات لسان میں سے ہیں جن سے بچنے کا واحد ذریعہ خاموشی ہے۔ انسان اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھے تو نجات پا جائے گا۔ محاور ہ ہے کہ ایک چپ لاکھ بلائیں ٹالتی ہے۔ لہٰذا زبان کو کلمہ خیر کے لیے ہی کھولنا چاہیے ورنہ چپ رہنے میں ہی عافیت ہے۔ حدیث مبارک ہے کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔ [بخاري: رقم 6018] اور دوسری حدیث ہے: ”اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ذکر اللہ کے علاوہ زیادہ کلام دل کی سختی کا باعث ہے اور سخت دل آدمی سب سے زیادہ اللہ سے دور ہوگا۔“( [ترمذي: 2211، حسن] امر بالمعروف، نہی عن المنکر، کلمہ خیر اور حق گوئی یہ سب ذکر الہی ہی کی اقسام ہیں۔