سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنو ہاشم! اے بنو قصی! میں ڈر سنانے والا ہوں، موت تباہی مچانے والی ہے اور قیامت وعدے کا وقت ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 333]
وضاحت: تشریح: - اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش اور ان کے ساتھ اپنے خاندان کو ڈرانے کا ذکر ہے۔ بنو ہاشم سے مراد آپ کے چچا اور ان کی اولاد ہے اور بنو قصی سے عام قریش مراد ہیں۔ آپ نے ان سب کو جمع کر کے دعوت اسلام پیش کی اور ان کو اللہ کے عذابوں سے ڈرایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب آیت ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214)”اور آپ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں۔“ نازل ہوئی تو آپ نے قریش کو آواز دی وہ سب جمع ہو گئے۔ آپ نے عام و خاص سبھی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے بنی کعب بن لوی! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالو، اے بنی مرہ بن کعب! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے بنی عبد شمس! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے بنی عبد المطلب! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے فاطمہ! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، میں اللہ کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ البتہ جو حق قرابت ہے میں اسے احسان کے ساتھ نبھاتا رہوں گا۔ [مسلم: 204] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر آواز دینے لگے: بنو فہر! بنو عدی! وہ سب اکٹھے ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر میں تم کو خبر دوں کہ وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ آپ نے فرمایا: میں عذاب شدید سے پہلے تمہیں ڈرانے والا (آگاہ کرنے والا) ہوں۔“ ابولہب نے کہا: باقی دن تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے اس لیے ہم کو جمع کیا تھا؟ تب سورت لہب نازل ہوئی۔ [بخاري: 4770 ؛ مسلم: 207]