1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث201 سے 400
239. الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا، فَهُوَ عَلَى الْبَادِئِ حَتَّى يَعْتَدِيَ الْمَظْلُومُ
239. آپس میں گالی گلوچ کرنے والے جو بھی کہیں تو (اس کاوبال) پہل کرنے والے پر ہوگا جب تک مظلوم حد سے تجاوز نہ کرے
حدیث نمبر: 329
329 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، ثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، ثنا ابْنُ لَهِيعَةَ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعِيدٍ الْكِنْدِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا، فَعَلَى الْبَادِئِ حَتَّى يَعْتَدِيَ الْمَظْلُومُ» وَرَوَاهُ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةَ، وَابْنِ حَجَرٍ قَالُوا: ثنا إِسْمَاعِيلُ، يَعْنُونَ: ابْنَ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا، فَعَلَى الْبَادِئُ مَا لَمْ يَعْتَدِ الْمَظْلُومُ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں گالی گلوچ کرنے والے جو بھی کہیں تو (اس کا وبال) پہل کرنے والے پر ہوگا جب تک کہ مظلوم حد سے تجاوز نہ کرے۔ اور اسے مسلم بن حجاج نے بھی اپنی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں گالی گلوچ کرنے والے جو بھی کہیں تو (اس کا وبال) پہل کرنے والے پر ہوگا جب تک کہ مظلوم حد سے تجاوز نہ کرے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 329]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم: 2587، وأبو داود: 4894، وترمذي: 1981، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5728، 5729»

وضاحت: تشریح: -
اس حدیث مبارک سے پتا چلا کہ جو شخص کسی کو گالی دینے میں پہل کرے تو اس کو جواباً اتنی گالی دینا جائز ہے جتنی کہ اس نے دی ہو اور اس گالی گلوچ کا سارا وبال اسی پر ہوگا جس نے گالی کی ابتدٱ کی ہے کیونکہ دوسرے شخص سے گالی نکلنے کا سبب یہ پہلا شخص ہی بنا ہے لہٰذا اس کا وبال اسی پر ہے۔ لیکن اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے یعنی ایک گالی کے بدلے دو گالیاں دے، تو پھر دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔ کیونکہ برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی کے ساتھ ہے۔ اور اگر مظلوم خاموش رہے، بدلہ ہی نہ لے، صبر کرے تو یہ بہت ہی افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ ٰ کا فرمان ہے:
﴿فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ﴾ (البقرة: 194)
پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم اس پر زیادتی کر سکتے ہو اتنی ہی جتنی کہ اس نے تم پر کی ہے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ‎ ﴿٤٠﴾ ‏ وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ ‎ ﴿٤١﴾ ‏ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‎ ﴿٤٢﴾ ‏ وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ‎﴾ (الشورى: 40- 43)
اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، بے شک اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے تو ایسے ا لوگوں پر (الزام کا) کوئی راستہ نہیں۔ (الزام کا) راستہ تو ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ﴾ (النحل: 126)
اور اگر تم بدلہ لوبھی تو بالکل اتنا ہی لو جتنا تمہیں صدمہ پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بے شک یہ صابروں کے لیے بہتر ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی آدمی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو گالی دی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ تعجب کر رہے تھے اور مسکرا رہے تھے، جب اس شخص نے زیادہ بدتمیزی کی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی کسی بات کا جواب دیا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ مجھے گالیاں دیئے جا رہا تھا جبکہ آپ تشریف فرما تھے، جب میں نے اس کی کسی بات کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھ فرشتہ تھا جو اسے جواب دے رہا تھا اور جب تم نے اسے جواب دیا تو شیطان واقع ہو گیا۔ پھر فرمایا: ابوبکر! تین چیزیں مکمل طور پر حق ہیں: جس شخص کی حق تلفی کی جائے اور وہ اللہ عزوجل کی خاطر اس سے چشم پوشی کرے، تو اس کے بدلے میں اللہ اسے قوت و نصرت عطا فرماتا ہے۔ جو شخص صلہ رحمی کی خاطر عطیہ دیتا ہے تو اللہ اس کے بدلے میں اسے زیادہ عطا فرماتا ہے۔ اور جو شخص کثرت (مال) کی خاطر دست سوال دراز کرتا ہے تو اللہ (اسے) مزید قلت فرما دیتا ہے۔ [أحمد: 2/ 436، حسن]