1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الشهاب
احادیث201 سے 400
145. أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ
145. قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلے ہوں گے
حدیث نمبر: 212
212 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الشَّاهِدُ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا شُعْبَةُ، ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَحْمَدَ الصُّوفِيُّ الْقَزْوِينِيُّ، ثنا أَبُو عَلِيٍّ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، ثنا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الْفِهْرِيُّ، ثنا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، ح وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَوْصِلِيُّ، ثنا أَبُو الطَّيِّبِ عُثْمَانُ بْنُ الْمُنْتَابِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ صَاعِدٍ، حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ هُوَ ابْنُ الْحَسَنِ أبنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، كُلُّهُمْ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ»
سیدنا عبد الله رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلے ہوں گے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 212]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البخاري: 6533، ومسلم: 1678، وترمذي: 1397، وابن ماجه: 2615»

وضاحت: تشریح:
مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن حقوق العباد میں سے جس چیز کا سب سے پہلے فیصلہ ہوگا وہ انسان کے خون کا فیصلہ ہوگا اور حقوق اللہ میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے سوال ہوگا وہ نماز ہے۔ اس سے پتا چلا کہ انسانی جان اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنی اہم ہے کیونکہ ابتدا عموماً اسی چیز سے کی جاتی ہے جو بہت زیادہ اہم ہو تو انسانی جان بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ٰ کے نزدیک بہت اہم ہے اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے اسی کے بارے میں فیصلہ ہوگا اور جس نے کسی کا ناحق خون بہایا ہوگا وہ اپنے جرم کی سزا بھگتے گا۔ اس گناہ کی سنگینی کے لیے درج ذیل احادیث پر غور کریں:
① مومن اپنے دین میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ کسی حرام خون کا ارتکاب نہ کرے۔ (بخاری: 6862)
② آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس (قاتل) کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور کہے گا: رب جی! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔ [الترمذي: 3029، صحيح]
③ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت مقتول اپنے قاتل کو لے کر آئے گا اور کہے گا: (رب جی!) اس سے پوچھیں کہ اس نے مجھے قتل کیوں کیا؟ تو وہ کہے گا: میں نے اسے فلاں کی سلطنت / فلاں کی مدد سے قتل کیا۔ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ظالم کی اعانت سے بچو۔ [نسائي: 2003، صحيح]
④ سعید بن مسیب نے کہا: کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے قتل کے بدلے میں پانچ یا سات آدمیوں کو قتل کیا انہوں نے اسے دھو کے سے قتل کیا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر اس کے قتل پر صنعاء کے تمام لوگ بھی مجتمع ہوتے تو میں (اس کے بدلے میں) سب کو قتل کر دیتا۔ [الموطا: 1988، مشكاة المصابيح: 3281، صحيح]
ان احادیث سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آرہی ہے کہ انسانی جان کی اللہ تعالیٰ ٰ کے ہاں کیا قدر و منزلت ہے کہ جس نے دنیا میں کسی جان کو ناحق قتل کیا اسے قیامت کے دن کتنی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا﴾ (المائدة: 32) جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد پھیلایا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جوشخص کسی کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کی جان بچائی۔
گویا ایک انسان کو ناحق قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنا ہے اور پھر اگر یہ جان مومن کی ہو تو اس گناہ کی سنگینی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ سورۃ النساء میں ہے:
﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (‎النساء: 93) ا
ور جو کوئی کسی مومن کو قصد ا قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس پر اس نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اللہ تعالیٰ ٰ کے ہاں پوری دنیا کا تباہ و برباد ہو جانا ایک مسلمان آدمی کے قتل کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ [الترمذي: 1395، حسن]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے گا بجز اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہو اور جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو۔ [أبو داود: 4270،صحيح]