سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست کا گوشت بکری کا، پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔ [موطا امام مالك رواية يحييٰ/كِتَابُ الطَّهَارَةِ/حدیث: 47]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 207، 5404، 5405، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 354، 359، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1129، 1131، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 184، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 187، 4673، وأبو داود فى «سننه» برقم: 187، 189، 190، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 488، 490، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 721، 722، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2013، 2019، والحميدي فى «مسنده» برقم: 922، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2352، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 635، 637، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 526، 527، شركة الحروف نمبر: 44، فواد عبدالباقي نمبر: 2 - كِتَابُ الطَّهَارَةِ-ح: 19»
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 47
فائدہ:
... پہلے پہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو فرمایا کرتے تھے لیکن بعد میں اسے ترک کر دیا، سوائے اونٹ کے گوشت کے کہ اُسے کھا کر وضو کرنے کا حکم ہے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 47
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 187
´آگ پر پکی چیز استعمال کرنے سے وضو ` «. . . أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ كَتِفَ شَاةٍ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 187]
فوائد و مسائل: اس مسئلے کا پس منظر یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں آگ پر پکی چیز استعمال کرنے سے وضو کرنے کا حکم تھا جو بعد میں منسوخ ہو گیا، مگر کچھ لوگوں کو منسوخ ہونے کا علم نہ ہو سکا اور وہ بدستور وضو کرنے کے قائل رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 187
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 189
´کھانے کے بعد کپڑے سے ہاتھ صاف کرنا` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتِفًا ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ بِمِسْحٍ كَانَ تَحْتَهُ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى . . .» ”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر اپنا ہاتھ اس ٹاٹ سے پوچھا جو آپ کے نیچے بچھا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 189]
فوائد و مسائل: شاید وہ کپڑا یا دری ہی اس قسم کی ہو گی کہ اس سے ہاتھ صاف کیا جا سکتا تھا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ گوشت وغیرہ کھانے کے بعد کلی کرنا اور پانی سے ہاتھ دھونا بھی ضروری نہیں، بلکہ صرف کپڑے اور تولیے سے صاف کر لینا بھی درست ہے۔ اسی طرح ٹشوپیپر سے ہاتھ صاف کر لینا بھی کافی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 189
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 190
´دانتوں سے نوچ کر کھانا` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَهَشَ مِنْ كَتِفٍ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . . .» ”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے دست کا گوشت نوچ کر کھایا پھر نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 190]
فوائد و مسائل: دانتوں سے نوچ کر کھانا سنت ہے اور لذت کا باعث بھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 190
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 65
´آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا` «. . . عن عبد الله بن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل كتف شاة، ثم صلى ولم يتوضا . . .» ”. . . سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کے کندھے کا (بھونا ہوا) گوشت کھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 65]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 207، ومسلم354، من حديث مالك به] تفقہ: ① معلوم ہوا کہ وضو کرنے کے بعد آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن یاد رہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے [صحيح مسلم 360، دارالسلام: 802] لہٰذا یہ مستثنی ہے۔ ② سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے گوشت کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [الموطا 27/1 ح53 وسنده صحيح] ③ ربیعہ بن عبدالله بن الہدیر رضی اللہ عنہ نے (سیدنا) عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کا کھانا کھایا پھر انہوں نے نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔ [الموطا 26/1 ح49 وسنده صحيح] ④ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے روٹی اور گوشت کھایا پھر کلی کی اور ہاتھ دھوئے اور اپنے چہرے پر اس کے ساتھ مسح کیا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [الموطا 26/1 ح 50 وسنده صحيح] ⑤ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ آگ پر پکا ہوا کھانا کھانے کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔ [الموطأ 1/27 ح52 وسنده صحيح] ⑥ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب عراق سے (مدینہ) تشریف لائے تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں اُن کے پاس (ملاقات کے لئے) آئے۔ آپ نے ان دونوں کی خدمت میں آگ پر پکا ہوا کھانا پیش کیا تو انہوں نے اس سے کھایا پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ وضو کرنے لگے تو دونوں صحابیوں نے پوچھا: اے انس! یہ کیا ہے؟ کیا عراقیت ہے؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کاش میں ایسا نہ کرتا۔ سیدنا ابوطلحہ اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر نماز پڑھی اور دوبارہ وضو نہ کیا۔ المؤطآ 27/1، 28 ح 55 و سندہ صحیح معلوم ہوا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹنے والی حدیث منسوخ ہے، اس سے صرف اونٹ کا گوشت مستشنٰی ہے، یہ گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے - ⑦ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو کے قائل تھے اور سیدنا عباس قائل نہیں تھے، پھر جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بات کی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں وضو نہ کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث سنائی دیکھئے [مسند أحمد 1/366 ح3464 وسنده صحيح] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا لہٰذا معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے عمل سے رجوع کرلیا تھا۔ واللہ اعلم ⑧ اگر کوئی چکنائی والی چیز کھائی جائے یا دودھ پیا جائے تو کلی کرنی چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 170
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 207
´ بکری کا گوشت اور ستو کھا کر نیا وضو نہ کرنا ثابت ہے ` «. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ كَتِفَ شَاةٍ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . . .» ”. . . وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ کھایا۔ پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ مِنْ لَحْمِ الشَّاةِ وَالسَّوِيقِ: 207]
تخريج الحديث: [200۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 50 باب من لم يتوضا من لحم الشاة والسويق 207، مسلم 354] فھم الحدیث: پہلے یہ حکم تھا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو کرو۔ [مسلم: كتاب الحيض 352، أبوداود 194، ترمذي 79، ابن ماجة 485،] لیکن بعد میں یہ منسوخ ہو گیا۔ اس باب کی احادیث اسی کا ثبوت ہیں۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 200
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث488
´آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر نیچے بچھے ہوئے چمڑے میں اپنا ہاتھ پونچھا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے، اور نماز پڑھائی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 488]
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا باب والاحکم لازمی نہیں بلکہ افضل ہے، یا وضو کا حکم منسوخ ہے جیسے کہ امام شافعی ؒکا ارشاد ہے۔ شیخ احمد شاکر نے بھی نسخ ہی کوترجیح دی ہے۔ یا مذکورہ بالا باب میں وضو سے مراد ہاتھ منہ دھونا ہے جبکہ اس باب میں شرعی وضو مراد ہے جو لازمی نہیں۔
(2) جس ٹاٹ اور دری سے آپ نے ہاتھ صاف کیے شاید وہ ٹاٹ اور وری ہی اس قسم کی ہوگی کہ اس سے ہاتھ صاف کیا جا سکتا تھا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ گوشت وغیرہ کھانے کے بعد کلی کرنا اور ہاتھ دھونا بھی ضروری نہیں بلکہ صرف کپڑے اور تولیے وغیرہ سے صاف کرلینا بھی درست ہے۔ اسی طرح ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرلینا کافی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 488
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:922
922-سفیان کہتے ہیں: زہری نے مجھے وہ روایات سنائیں جن میں آگ پریکی ہوئی چیز (کھانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم ثابت ہوتا ہے) ان میں سے کچھ روایات میں یہ حکم تھا کہ ایسی صورت میں وضو کرنا پڑتا ہے اور کچھ میں یہ حکم تھا کہ ایسی صورت میں وضو نہیں کرنا پڑتا، تو یہ روایات میرے لیے خلط ملط ہوگئیں۔ جن روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آگ پریکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو لازم ہوتا ہے وہ روایات ابوسلمہ، عمربن عبدالعزیز، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:922]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ کے علاوہ کسی بھی ماکول اللحم جانور کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ آگ سے پکی چیز کھانے سے وضو کا ٹوٹنا منسوخ ہے، نیز اس حدیث میں ان گمراہ صوفیوں کا رد ہے جو ساری عمر گوشت نہیں کھاتے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 921
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 791
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:791]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: عرق: ہڈی جس پر تھوڑا سا گوشت ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 791
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:207
207. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کے شانے کا گوشت تناول فرمایا، پھر نماز پڑھی اوروضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:207]
حدیث حاشیہ: 1۔ قاضی اسماعیل نے وضاحت کی ہے کہ گوشت کھانے کا یہ واقعہ حضرت ضباعہ بنت زبیر ؓ کے گھر پیش آیا جو رسول اللہ ﷺ کی چچا زاد ہمیشرہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے حضرت میمونہ ؓ کے گھر گوشت تناول فرمایا ہو جس کا ذکر آئندہ حدیث (210) میں آرہا ہے (فتح الباري: 406/1) امام نسائی ؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق آپ کو نماز کی اطلاع دینے والے حضرت بلال ؓ تھے (سنن النسائي، الطهارة، حدیث: 182) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کے مقصود کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ جب گوشت کے استعمال سے وضو ضروری نہیں تو اس سے کم درجے کی چیزیں جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی (جیسے ستو وغیرہ) ان کے کھانے سے بدرجہ اولیٰ وضو نہیں ہو گا۔ بکری کے گوشت کا ذکر اس لیے کیا کہ شاید آپ اس سے اونٹ کے گوشت کا استثنا کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس میں چکناہٹ اور ایک قسم کی ناگوار سی بو زیادہ ہوتی ہے۔ غالباً اسی بنا پر اس میں کچے اور پختہ کی تمیز نہیں یعنی مطبوخ اور غیر مطبوخ دونوں برا بر ہیں۔ امام احمد ؒ نے اونٹ کا گوشت استعمال کرنے کے بعد وضو کو ضروری قراردیا ہے اور محدثین میں سے امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري: 405/1) امام بخاری ؒ کا لحم الشاۃ کا تذکرہ کرنے کا یہ بھی مقصد ہوسکتا ہے کہ آپ جگہ جگہ عنوانات میں ایسی قید لگا دیتے ہیں جس کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن حدیث میں اس کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے قضیہ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے بسا اوقات وہ ایسا کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ 3۔ ابتدائے اسلام میں آگ کے ذریعے سے تیار کی گئی چیزوں کے استعمال کے بعد وضو کرنے کا حکم تھا، جیسا کہ حضرت زید بن ثابت ؓ، حضرت ابو ہریرہ ؓ اور صدیقہ کائنات ؓ سے مروی احادیث سے پتہ چلتا ہے ان احادیث کا ذکر متعدد کتب حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 787۔ 788۔ 789 (352) حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری حکم یہ تھا کہ آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 192) عام محدثین حدیث جابر کے پیش نظر آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کے حکم کو منسوخ قراردیتے ہیں۔ لیکن امام ابو داود ؒ نے حدیث جابر سے نسخ کی متعارف صورت کو مرجوح قراردیا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ایک حکم وجوب وضو کا دیا ہواور پھر دوسرا حکم ترک وضو کا ارشاد فرمایا ہو، بلکہ ان کے نزدیک دو واقعات ایک ہی دن میں پیش آئے اور نماز ظہر اور نماز عصر میں دو طرح کا عمل مروی ہوا ہے، انھوں نے خاص طور پر پہلے مفصل حدیث ذکر فرمائی اور اس کے بعد مجمل حدیث کا تذکرہ کیا، پھر فرمایا کہ یہ آخری حدیث پہلی روایت کا اختصار ہے، مفصل حدیث جابر اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روٹی اور گوشت پیش کیا گیا فراغت کے بعد آپ نے وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی پھر آپ نے بقیہ کھانا طلب کیا، اسے تناول کرنے کے بعد آپ نے نماز عصر ادا کی اور وضو نہ فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث: 191) ابن حزم ؒ نے امام ابو داؤد ؒ کے موقف کو ”قول بالظن “ قراردیا ہے، پھر '' ظن أکذب الحدیث" کہا ہے، چونکہ اکابر محدثین اس مسئلے کے متعلق متعارف نسخ اور عدم نسخ کی بابت دو مستقل رائے رکھتے ہیں، نسخ کی طرف امام ترمذی ؒ کا رجحان ہے تودوسری طرف امام ابو داود ؒ ہیں۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کر کے اپنے نزدیک راجح مسلک کی نشاندہی کر دی۔ پھر محدثانہ اصول کے مطابق خلفائے ثلاثہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے مختلف روایات منقول ہوں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ترجیح دی جاتی ہے اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کے متعلق مختلف ہوں تو خلفائے راشدین کے عمل کو دیکھا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان کے بعد خلفائے ثلاثہ کا عمل پیش کیا ہے، اس میں یہی حکمت پنہاں ہے۔ (فتح الباري: 407/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 207