الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
حَدِيثَا عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
1. حدیث نمبر 929
حدیث نمبر: 929
929 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، سَمِعَهُ مِنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، سَمِعَهُ مِنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمَّ قَوْمَكَ وَاقْدُرْهُمْ بِأَضْعَفِهِمْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ»
929- سیدنا عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: تم اپنی قوم کی امامت کرو اور ان میں سے سب سے کمزور فرد کا حساب رکھنا، کیونکہ لوگوں میں بڑی عمر کے لوگ، کمزور لوگ اور کام کاج والے لوگ ہوتے ہیں۔

[مسند الحميدي/حَدِيثَا عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 929]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 468، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 423، 1608، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 727، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 671، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1648، وأبو داود فى «سننه» برقم: 531، والترمذي فى «جامعه» برقم: 209، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 714، 987، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2050، 5351، 5352، 5361، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16528، 16529»

   سنن النسائى الصغرىاتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا
   جامع الترمذياتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا
   سنن أبي داوداتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا
   سنن ابن ماجهلا أتخذ مؤذنا يأخذ على الأذان أجرا
   المستدرك على الصحيحيناتخذ مؤذنا لا يتخذ على أذانه أجرا
   بلوغ المرام‏‏‏‏انت إمامهم واقتد باضعفهم واتخذ مؤذنا لا ياخذ على اذانه اجرا
   مسندالحميديأم قومك واقدرهم بأضعفهم، فإن منهم الكبير والضعيف وذا الحاجة
   مسندالحميديواتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 929 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:929  
فائدہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ امام کو مقتدیوں کا خیال رکھ کر نماز پڑھانی چاہیے، بعض قراء اپنی آواز میں حسن و جمال پیدا کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا ماہر قاری ثابت کرنے کی غرض سے لمبی لمبی نمازیں پڑھاتے ہیں، اور مقتدیوں کا ذرا خیال نہیں رکھتے، ہم اس موقع پر نصیحت کرنا چاہتے ہیں کہ عام لوگ دین سے دور ہیں، اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ بے علم قاری، ائمہ مساجد اور علماء ہیں، افسوس کہ آج منبر و محراب کے مالک جاہل لوگ بنے ہوئے ہیں، جن کا مطمع نظر پیسہ ہے نہ کہ دین کی خدمت۔ اللہ رب العالمین مساجد و مدارس کو بے علم اور بے عمل مولویوں سے محفوظ فرمائے آمین۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 928   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 154  
´مؤذن کا اذان کی اجرت و معاوضہ لینا`
«. . . وعن عثمان بن ابي العاص رضي الله عنه قال: يا رسول الله اجعلني إمام قومي. فقال: ‏‏‏‏انت إمامهم واقتد باضعفهم واتخذ مؤذنا لا ياخذ على اذانه اجرا . . .»
. . . سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیں۔ ارشاد ہوا تم ان کے امام ہو (تمہیں تمہاری قوم کا امام مقرر کر دیا گیا) ان میں کمزور و ضعیف لوگوں کا خیال رکھو اور مؤذن ایسے آدمی کو مقرر کرو جو اذان کہنے کی اجرت نہ طلب کرے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 154]
لغوی تشریح:
«وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ» «اقتداء» سے فعل امر ہے، یعنی اپنے نمازیوں میں سب سے زیادہ ضعیف کو اپنا نمونہ بناؤ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا خیال رکھو، گویا تم اس کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو۔

فوائد و مسائل:
➊ مؤذن کا اذان کی اجرت و معاوضہ لینا جائز ہے یا ناجائز؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ اس حدیث سے معاوضے کی حرمت ثابت نہیں ہوتی، البتہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر معاوضہ لیے اذان کہنا مندوب و مستحسن ہے۔
➋ اکثر فقہاء کے نزدیک یہ مکروہ ہے حرام نہیں بلکہ متاخرین علماء نے ناگزیر وجوہ کی بنا پر معاوضہ لینے کو جائز قرار دیا ہے۔
➌ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر حال میں نمازیوں کی رعایت ملحوظ رکھنی چاہیے اور دیگر ارکان و واجبات کو اتنا لمبا نہیں کرنا چاہیے کہ کمزور و ناتواں لوگ اکتا جائیں اور نماز باجماعت سے محروم رہ جائیں۔
➍ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بھلائی اور نیکی کے کام میں امامت کی طلب جائز ہے۔ اس کے آداب و شرائط کماحقہ پورے کرنے کی صورت میں اس کا سوال کرنا بھی جائز ہے۔

راوئ حدیث:
(سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ) ابوعبداللہ ان کی کنیت ہے۔ طائف سے جو وفد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا یہ ان میں سب سے کم عمر تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو وفد پر عامل مقرر فرمایا۔ انہوں نے اپنی قوم کو مرتد ہونے سے بچایا اور وہ اسلام پر ثابت قدم رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو بحرین اور عمان پر عامل مقرر فرمایا۔ بصرہ میں 51 ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 154   

  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 531  
´اذان پر اجرت کا جواز`
«. . . عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، قَالَ: قُلْتُ: وَقَالَ مُوسَى فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: إِنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْنِي إِمَامَ قَوْمِي، قَالَ:" أَنْتَ إِمَامُهُمْ وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ وَاتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لَا يَأْخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا . . .»
. . . عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے امام ہو تو تم ان کے کمزور ترین لوگوں کی رعایت کرنا، اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الصَّلَاةِ: 531]
فقہ الحدیث:
اس حدیث کو:
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
◈ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے امام مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔ [تنقيح التحقيق فى احاديث التعليق:183/4، اضواء السلف، الرياض، 2007ء]

اس حدیث سے اذان اور دیگر دینی امور پر اجرت کی حرمت قطعاً ثابت نہیں ہوتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایسا مؤذن مقرر کیجیے، جو اذان پر اجرت نہ لے، واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ اذان پر اجرت لینے والے لوگ اس دور میں موجود تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کوئی وعید نہیں سنائی۔ اگر اذان پر اجرت ناجائز و حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حوالے سے صریح ہدایت فرماتے، کیوں کہ حرام کی قباحت و شناعت اتنی ہے کہ اس حوالے سے مبہم بات نہیں کی جا سکتی۔ یوں اس حدیث سے اذان کی اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

یہ ہماری اپنی بنائی ہوئی بات نہیں، بلکہ اسلاف امت اس حدیث سے یہی استدلال کرتے تھے، جیسا کہ:
◈ علامہ، ابوجعفر، احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فقال قائل: فى هذا الحديث ما يدل على جواز اخذ الاجر على الاذان»
ایک کہنے والے نے کہا: اس حدیث کے الفاظ اذان کی اجرت لینے کے جواز پر دلیل ہیں۔ [شرح مشكل الآثار:263/15، مؤسسة الرسالة، بيروت،1994ء]
پھر موصوف نے فقہ حنفی کا دفاع کرتے ہوئے اس کے جواب میں دور کی کوڑی لانے کی کوشش بھی کی ہے۔ بہرحال یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ اسلاف اسی حدیث سے اذان کی اجرت کے جواز پر استدلال کرتے رہے ہیں۔

اکثر اہل علم نے اس حدیث کو کراہت پر محول کیا ہے اور اجرت نہ لینے کو بہتر قرار دیا ہے، لینے کو حرام نہیں کہا، جیسا کہ:
◈ محدث شہیر، امام، ابوعیسٰی، محمد بن عیسیٰ، ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا ان ياخذ المؤذن على الاذان اجرا واستحبوا للمؤذن ان يحتسب فى اذانه»
اس حدیث پر اہل علم کے ہاں عمل کیا جاتا ہے۔ اہل علم یہ ناپسند کرتے ہیں کہ موذّن اذان پر اجرت لے۔ وہ موذّن کے لیے یہ مستحب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اذان میں صرف نیکی کا ارادہ رکھے۔ [سنن الترمذي، ابواب الصلاة، باب ماجاء فى كراهية ان ياخذ الموذن على الاذان اجرا]

◈ حافظ، ابومحمد، حسین بن مسعود، بغوی رحمہ اللہ (م:516ھ) فرماتے ہیں:
«والاختيار عند عامة أهل العلم أن يحتسب بالأذان، وكرهوا أن يأخذ عليه أجرا»
اکثر اہل علم کے نزدیک بہتر یہی ہے کہ مؤذن، اذان سے صرف نیکی کا ارادہ رکھے۔ وہ اذان پر اجرت لینا ناپسند کرتے ہیں۔ [شرح السنّة:280/2، المكتب الاسلامي، بيروت، 1983ء]

◈ علامہ، عبداللہ بن احمد، ابن قدامہ، مقدسی رحمہ اللہ (541۔620ھ) اذان پر اجرت کے ناپسندیدہ ہونے کے حوالے سے بعض اہل علم کے اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
«لأنه عمل معلوم، يجوز أخذ الرزق عليه، فجاز أخذ الأجرة عليه، كسائر الأعمال، ولا نعلم خلافا فى جواز أخذ الرزق عليه»
چونکہ یہ معلوم عمل ہے، لہذا اس پر اجرت لینا جائز ہے، جیسے دیگر تمام اعمال پر اجرت جائز ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اذان پر اجرت کے جائز ہونے میں کسی نے کوئی اختلاف کیا ہو۔ [المغني:301/1، مكتبة القاهرة،1968ء]

◈ علامہ، ابوبکر، محمد بن عبداللہ، ابن العربی رحمہ اللہ (468۔543ھ) سے نقل کرتے ہوئے علامہ محمد عبدالرحمٰن محدث، مبارک پوری رحمہ اللہ (م:1353ھ) لکھتے ہیں: «الصحيح جواز أخذ الأجرة على الأذان، والصلاة، والقضاء وجميع الأعمال الدينية»
اذان، نماز، قضا سمیت دینی امور پر اجرت کا جائز ہونا ہی صحیح (راجح) ہے۔ [تحفة الأحوذي:528/1، دارالكتب العلمية، بيروت]

◈ معروف شارح حدیث، علامہ حسین بن محمد، طیبی رحمہ اللہ (م:743ھ) فرماتے ہیں:
«قيل تمسك به من منع الاستئجار على الأذان، ولا دليل فيه، لجواز أنه صلى الله عليه وسلم أمره بذلك أخذا بالأفضل»
ایک قول کے مطابق اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے، جو اذان پر اجرت کو ممنوع قرار دیتے ہیں، لیکن اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ عین ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صرف افضیلت کو اختیار کرتے ہوئے دیا ہو۔ [شرح الطيبي على مشكاة المصابيح، المعروف ب الكاشف عن حقائق السنن: 918/3، مكتبة نزار مصطفيٰ الباز، الرياض، 1997ء]

◈ نیز فرماتے ہیں:
«وأن يستحب للإمام التخفيف فى الصلاة، واستحباب الأذان بغير أجرة»
امام کے لیے نماز میں تخفیف کرنا مستحب ہے، نیز اذان کو بغیر اجرت کے کہنا بھی مستحب ہے [ايضاً]

◈ علامہ محمد بن اسماعیل، امیر صنعانی رحمہ اللہ (1099۔1182ھ) لکھتے ہیں:
«ولا يخفي أنه لا يدل على التحريم»
بہت واضح ہے کہ اس حدیث سے اذان کی اجرت کا حرام ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ [سبل السلام فى شرح بلوغ المرام:117/2، دارالحديث]

◈ علامہ، ابوالحسن، عبیداللہ بن محمد، مبارک پوری رحمہ اللہ (1327۔1414ھ) فرماتے ہیں:
«واستدال بعضهم على التحريم بهذا الحديث، ولا يخفي أنه لا يدل على التحريم»
بعض لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اذان کی اجرت حرام ہے، لیکن یہ بات مخفی نہیں کہ یہ حدیث اذان کی اجرت کے حرام ہونے پر دلالت نہیں کرتی [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: 375/2، الجامعة السلفيّة، بنارس، 1984ء]

↰ یعنی اکثر علماے امت کا اس حدیث کو حرمت کی بجائے کراہت پر محمول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اذان پر لی جانے والی اجرت حرام نہیں، بلکہ اس میں زیادہ سے زیادہ کراہت ہے اور محض کراہت جواز ہی کی دلیل ہوتی ہے، جیسا کہ:
● سینگی لگانے کی اجرت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وكسب الحجام خبيث»
سینگی لگانے والے شخص کی کمائی خبیث (مکروہ) ہے۔ [صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب، رقم الحديث:1568]

● لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینگی کی اجرت دینا بھی ثابت ہے۔
حميد تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«سئل انس بن مالك عن كسب الحجام، فقال: احتجم رسول الله صلي الله عليه وسلم، حجمه ابوطيبة، فامر له بصاعين من طعام، وكلم اهله، فوضعوا عنه من خراجه، وقال: ان افضل ما تداويتم به الحجامة»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سینگی لگانے والے شخص کی کمائی کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی۔ آپ کو ایک غلام ابوطیبہ نے سینگی لگائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو صاع غلہ دینے کا حکم فرمایا، نیز اس کے مالکوں سے بات کی تو انہوں نے اس کے خراج (طلب کی جانے والی کمائی) میں کمی کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ تم علاج کے جتنے بھی طریقے اختیار کرتے ہو، ان میں سب سے بہترین سینگی لگانا ہے۔ [صحيح مسلم، كتاب المساقاة، باب حل أجرة الحجامة، رقم الحديث:1577]
جب ایک اجرت خبیث کہے جانے کے باوجود دوسرے دلائل کی بنا پر جائز ہو سکتی ہے تو جسے خبیث بھی نہیں کہا گیا، وہ دوسرے دلائل سے کیوں جائز نہیں ہوتی؟

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح سینگی لگانے کی اجرت کے خبیث ہونے سے مراد ناجائز و حرام نہیں، بلکہ جائز مع الکراہت ہے، اسی طرح اذان کی اجرت نہ لینے والے مؤذّن کی تقرری سے مراد بھی جائز مع الکراہت ہی ہے، بلکہ اس کی کراہت سینگی کی اجرت سے کم بھی ہے، کیونکہ اس پر کوئی حکم نہیں لگایا گیا۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ایک روایت
یحیٰی بکا بیان کرتا ہے:
«حدثنا أبو بكر قال نا وكيع عن عمارة بن زاذان عن يحيى البكاء قال كنت آخذا بيد ابن عمر، وهو يطوف بالكعبة فلقيه رجل من مؤذني الكعبة فقال إني لاحبك فى الله فقال ابن عمر وإني لابغضك فى الله إنك تحسن صوتك لاخذ الدراهم .»
میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔ آپ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ کعبہ کا ایک مؤذّن آپ کو ملا۔ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: میں تو اللہ کے لیے تم سے نفرت کرتا ہوں، کیوں کہ تم درہم لینے کی خاطر اپنی آواز کو خوب صورت بناتے ہو۔ [الصلاة لأبي نعيم الفضل بن دكين، باب أخذ الأجرة على الأذان، ص:162۔ مكتبة الغرباء الأثرية، المدينة المنورة،1996ء، الكتاب المصنف فى الأحاديث والآثار لابن أبى شيبة:207/1، مكتبة الرشد، الرياض، 1409ه، واللفظ له]
تبصره: یاد رہے کہ امام ابو نعیم کی نقل کردہ روایت کے مطابق یحییٰ بکا نے بتایا ہے کہ وہ سعید بن جبیر کا ہاتھ تھامے ہوئے طواف کر رہا تھا!
یحییٰ بن مسلم، بکا نامی راوی ضعیف ہے۔ [الكاشف للذهبي:376/2، دار القبلة للثقافة الاسلاميّة، جدّه، 1992ء، تقريب التهذيب لابن حجر، ص:597، دارالرشيد، سوريا، 1986ء]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 79، حدیث/صفحہ نمبر: 35   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 531  
´اذان دینے پر اجرت لینے کا بیان۔`
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے امام ہو تو تم ان کے کمزور ترین لوگوں کی رعایت کرنا، اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 531]
531۔ اردو حاشیہ:
اس روایت کا آخری حصہ اور موذن ایسا مقرر کرنا جو اپنی اذان پر ا جرت نہ لے۔ اولیٰ کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی افضل یہی ہے کہ یہ منصب کسی ایسے شخص کے سپرد کیا جائے۔ جو اللہ کی رضا کے لئے یہ کام کرے۔ اگر ایسا کوئی شخص میسر نہ ہو تو تنخواہ پر موذن رکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اس عمل میں ایک اہم دینی مصلحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 531   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 673  
´اجرت نہ لینے والے آدمی کو مؤذن مقرر کرنے کا بیان۔`
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے میرے قبیلے کا امام بنا دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے امام ہو (لیکن) ان کے کمزور لوگوں کی اقتداء کرنا ۱؎ اور ایسے شخص کو مؤذن رکھنا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 673]
673 ۔ اردو حاشیہ: اذان، نماز یا تعلیم کی اجرت لینا جمہور اہل علم کے نزدیک جائز ہے۔ ہاں، نہ لے تو اولیٰ ہے۔ یاد رہے کہ اذان وغیرہ دینا اجرت کے ساتھ اس طرح مشروط نہ ہو کہ اگر اس کی اجرت اور تنخواہ نہ ملے تو اذان بھی نہ دے، یہ چیز صراحتاً دینی روح اور اخلاص کے منافی ہے۔ غالباً حدیث میں اسی قسم کی شرط کے پیش نظر ایسے مؤذن کو نہ رکھنے کی ترغیب ہے نہ کہ سرے سے اس کا تعاون ہی نہیں ہو سکتا، ایسا قطعاً نہیں۔ اگر کوئی برسرروز گار نہ ہو، صرف اسی قسم کی خدمت کے لیے وقف ہو تو اس کی روز مرہ ضروریات کا بندوبست اچھا ہونا چاہیے، وگرنہ وہ دلجمعی سے اپنی ذمہ داری نہیں نبھا سکے گا اور بالآخر چھوڑنے پر مجبور ہو گا تو اس قسم کی دینی ذمہ داریاں پھر کون نبھائے گا؟ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 673   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث714  
´اذان کی سنتوں کا بیان۔`
عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری وصیت یہ کی تھی کہ میں کوئی ایسا مؤذن نہ رکھوں جو اذان پر اجرت لیتا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 714]
اردو حاشہ:
(1)
مؤذن کا تقرر امام کا منصب ہے۔

(2)
حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ عنہ کو رسول اللہﷺ نے یہ نصیحت اس وقت فرمائی تھی جب انھیں ان کے قبیلے کا امام مقرر کیا تھا۔ دیکھیے: (سنن ابن داود، الصلاة، باب أخذ الأجر علي التأذين، حديث: 531 وسنن النسائي، الأذان، باب أتخاذ الموذن الذي لا يأخذ علي أذانه أجرا، حديث: 673)

(2)
اجتماعی خدمت میں افضل یہ ہے کہ اجرت نہ لی جائے، تاہم اس کی خدمت کا مناسب معاوضہ دیا جائے تو مناسب ہے جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب خلافت کا منصب سنبھالا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ امیر المومنین کے ضروری اخراجات بیت المال سے پورے کئے جائیں گے تاہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت وصول شدہ تنخواہ واپس کردینے کی وصیت فرمائی تاکہ ان کی یہ اجتماعی خدمت فی سبیل اللہ شمار ہو
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 714   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 209  
´اذان کی اجرت لینے کی کراہت کا بیان۔`
عثمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے یہ کی کہ مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 209]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ تب ہے جب محلے میں ایسے افراد ہوں جو یہ کام اجر و ثواب کی نیت سے کرسکیں،
مگر جہاں ایسے حالات نہ ہوں وہاں اجرت پر مؤذن رکھنے کی مجبوری ہے،
اور اس زمانہ میں زیادہ تر محلوں میں حالات ایسے ہی ہیں،
نیز آج کل مساجد میں مؤذن صرف اذان کے لیے ہی نہیں رکھے جاتے بلکہ مسجد کی دیگر خدمات بھی انجام دیتے ہیں،
چونکہ وقت وہ پورا دیتے ہیں اس لیے آج کل جو مؤذنین کو اجرت دی جاتی ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 209   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:930  
930- سیدنا عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا: تم ایسے شخص کو مؤذن رکھنا جو اذان دینے کا معاوضہ وصول نہ کرے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:930]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مؤذن کوا پنی اجرت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر مؤذن بے چارہ غریب اور مسکین ہے، لوگوں کو اس کا علم بھی ہے لیکن پھر بھی اس کی خدمت نہ کریں، ہر وہ انسان جومحتاج ہو اس کی خدمت کرنا فرض ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 929