تخریج: «أخرجه البخاري، السهو، باب ما جاء في السهو إذا قام من ركعتي الفريضة، حديث:1224، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة والسجود له، حديث:570، وأبوداود، الصلاة، حديث:1034، والترمذي، الصلاة، حديث:391، والنسائي، السهو، حديث:1223، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1206، 1207، وأحمد:5 /345، 346.»
تشریح:
1. عربی میں بھول کے لیے دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک سہو اور دوسرا نسیان۔
پہلے کا اطلاق عموماً افعال کے لیے ہوتا ہے اور دوسرے کا معلومات کے لیے۔
اس کے باوجود کبھی کبھی یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے ہم معنی بھی آجاتے ہیں۔
علماء میں سے شاید ایک بھی ایسا نہیں ہے جو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نسیان کا قائل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی ابلاغ احکام الٰہی اور شریعت کے پہنچانے میں نسیان لاحق نہیں ہوا اور لاحق ہونے کا امکان بھی نہیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی﴾ (الأعلیٰ ۸۷:۶) باقی جہاں تک سہو کا معاملہ ہے‘ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ آپ سے سہو کا امکان ہے اور عملاً ہوا بھی ہے۔
متعدد صحیح احادیث اس بارے میں کتب احادیث میں موجود ہیں اور بہت سے واقعات عملی طور پر اس کا ثبوت ہیں۔
ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ بھی سہو کو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت سمجھتے ہیں۔
غالباً آج تک کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس میں تو بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں صاحب علم و بصیرت لوگ ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
2. دوسرا مسئلہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی نمازی کو تشہد اول بھول جائے تو اس نقصان کی تلافی سجدۂ سہو سے ہو جاتی ہے۔
سجدۂ سہو قبل از سلام کیا جائے یا بعد از سلام؟ احادیث سے آپ کا عمل دونوں طرح ثابت ہے۔
زندگی بھر ایک لگے بندھے طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ثابت نہیں ہوتا کہ بس فلاں طریقے پر ساری عمر عمل فرماتے رہے‘ البتہ جب ائمہ رحمہم اللہ کا دور آیا اور تقلید شخصی پر عمل شروع ہوا تو ائمۂ کرام کے مقلدین نے اپنے اپنے دائرے میں صورتیں معین کرلیں۔
3.ایک رائے یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جس مقام پر جو طرز عمل اختیار فرمایا وہاں اسی طرح عمل کیا جائے۔
مگر باقی مواقع پر جس طرح تحقیق سے ثابت ہوا ہو اس پر عمل کرے۔
4.امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار
(۳ /۱۲۲. ۱۲۸) میں اس طرز عمل کو بہتر قرار دیا ہے کہ نماز میں کمی واقع ہو جانے کی صورت میں سجدۂ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کیا جانا چاہیے اور اگر زیادتی واقع ہو جائے تو سلام پھیرنے کے بعد کیا جائے‘ البتہ ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ کرنا‘ پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرنا‘ صحیح احادیث کی روشنی میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں۔