الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
حَدِيثُ إِيَاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ایاس بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
1. حدیث نمبر 900
حدیث نمبر: 900
900 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَضْرِبُوا إِمَاءَ اللَّهِ» ، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ ذَئِرْنَ النِّسَاءُ عَلَي أَزْوَاجِهِنَّ مُذْ نَهَيْتَ عَنْ ضَرْبِهِنَّ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَضَرَبُوا، فَأَطَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ نِسَاءٌ كَثِيرٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ أَطَافَ اللَّيْلَةَ بِآلِ مُحَمَّدٍ سَبْعُونَ امْرَأَةً كُلُّهُنَّ تَشْتَكِي زَوْجَهَا، وَلَا تَجِدُونَ أُولَئِكَ خِيَارَكُمْ»
900- سیدنا ایاس بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ کی کنیزوں کو نہ مارو۔
راوی بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اس وقت سے خواتین اپنے شوہروں کے بارے میں شیر ہوگئی ہیں، جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے سے منع کیا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوا س کی اجازت دے دی۔
لوگوں نے ان کی پٹائی کرنا شروع کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس بہت سی خواتین حاضر ہوئیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گزشتہ رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کے پاس 70 خواتین آئیں تھیں۔ ان سب نے اپنے شوہروں کی شکایت کی، تو تم ان لوگوں کو اپنے سے بہتر نہیں پاؤ گے۔ (یعنی اپنی بیوی کی پٹائی کرنے والا شخص اچھا نہیں ہوتا)
[مسند الحميدي/حَدِيثُ إِيَاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 900]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4189، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2781، 2790، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9122، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2146، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2265، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1985، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14893، 14899، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17945، والطبراني فى "الكبير" برقم: 784، 785، 786»

   سنن أبي داودلا تضربوا إماء الله
   سنن ابن ماجهلا تضربوا إماء الله
   مسندالحميديلا تضربوا إماء الله

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 900 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:900  
فائدہ:
اس حدیث میں بیویوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے، اس سے مرادا یہی مار ہے جس سے اس کی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے، ہلکی پھلکی ڈانٹ اور مسواک وغیرہ سے مارنا ادب کی خاطر درست ہے۔ علم کی کمی ہے جس کی وجہ سے مرد اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کوقرآن و حد بیث کا فہم عطا فرمائے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مظلوم اپنی شکایت حاکم وقت تک پہنچا سکتا ہے، اور یہ غیبت نہیں ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 899   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1985  
´عورتوں کو مارنے پیٹنے کے حکم کا بیان۔`
ایاس بن عبداللہ بن ابی ذباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی بندیوں کو نہ مارو، تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! عورتیں اپنے شوہروں پہ دلیر ہو گئی ہیں، لہٰذا انہیں مارنے کی اجازت دیجئیے (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی) تو ان کو مار پڑی، اب بہت ساری عورتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کا چکر کاٹنے لگیں، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آل محمد کے گھر آج رات ستر عورتیں آئیں، ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1985]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مار پیٹ میں اعتدال ضروری ہے۔
صرف اس حدی تک سختی ہونی چاہیے کہ مرد کا رعب عورت پر قائم رہے۔

(2)
  مظلوم ظالم کی شکایت ایسے شخص سے کر سکتا ہے جو ظالم کو ظلم سے روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔

(3)
عورت کسی معمولی کام کی غرض سے تھوڑے وقت کے لیے خاوند کی اجازت کے بغیر دوسرے گھر جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1985