الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
حَدِيثُ أَبِي رَمْثَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابورمثہ سلمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
1. حدیث نمبر 890
حدیث نمبر: 890
890 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبْحَرَ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رَمْثَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَي أَبِي الَّذِي بِظَهْرِهِ، فَقَالَ: دَعْنِي أُعَالِجُ الَّذِي بِظَهْرِكَ، فَإِنِّي طَبَّيْبٌ، فَقَالَ: «إِنَّكَ رَفِيقٌ، وَاللَّهُ الطَّبِيبُ» ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِأَبِي: «مَنْ ذَا مَعَكَ؟» ، فَقَالَ: ابْنِي أَشْهَدُ لَكَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّكَ لَا تَجْنِي عَلَيْهِ، وَلَا يَجْنِي عَلَيْكَ» ، وَذَكَرَ أَنَّهُ رَأَي بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدْعَ الْحِنَّاءِ
890- سیدنا ابورمثہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میرے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر موجود (تکلیف یا رگ) کا جائزہ لیا تو انہوں نے عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر موجود (تکلیف یا رگ) کا علاج کروں، کیونکہ میں حکیم ہوں۔
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم رفیق ہو، اللہ تعالیٰ طبیب ہے۔
راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد سے دریافت کیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دے کر یہ کہتا ہوں کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اس کے کیے کی سزا نہیں بھگتوگے اور یہ تمہارے کیے کی سزا نہیں بھگتے گا۔
انہوں نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (بالوں میں) کہیں، کہیں مہندی کانشان بھی دیکھا۔

[مسند الحميدي/حَدِيثُ أَبِي رَمْثَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 890]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5995، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3611، 7338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4847، 5098، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7007، 9303، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4208، 4495، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2433، 2434، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16001، 16002، 17771، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7226، 7227»

   سنن النسائى الصغرىيخطب وعليه بردان أخضران
   جامع الترمذيعليه بردان أخضران
   سنن أبي داودإذا هو ذو وفرة بها ردع حناء وعليه بردان أخضران
   سنن أبي داودعليه بردين أخضرين
   سنن أبي داودلا تجني عليه وكان قد لطخ لحيته بالحناء
   سنن النسائى الصغرىلطخ لحيته بالحناء
   سنن النسائى الصغرىعليه ثوبان أخضران
   مسندالحميديإنك رفيق، والله الطبيب

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 890 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:890  
فائدہ:
اس حدیث میں مہر نبوت کا ذکر ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر دو کندھوں کے درمیان تھی، اور یہ کبوتری کے انڈے کی مشکل تھی، اس کی مزید وضاحت آئندہ حدیث میں آ رہی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اصل طبیب اللہ رب العزت کی ذات ہے، اور مہندی لگا نا مسنون ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا، جیسے قرآن مجید میں ہے:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ (الانعام: 164)
کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھاۓ گی۔
یہ قاعدہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ہے۔ جرم کی سزا اصل مجرم ہی کو دینی چاہیے۔ ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کہ اس کے دوسرے عزیز و اقارب کو، جو لوگ ایسی غیر اخلاقی حرکت کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں نہایت ہی درد ناک عذاب ہے۔ «اعاذنا الله منه» ۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 890   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1573  
´عیدین کے خطبہ کے لیے زینت کا بیان۔`
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خطبہ دے رہے تھے اور آپ پر ہرے رنگ کی دو چادریں تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1573]
1573۔ اردو حاشیہ:
➊ برددھاری دار چادر کو کہا جاتا تھا۔ یہ عام طور پر یمن میں بنی جاتی تھیں۔ گویا وہ چادریں خالص سبز نہ تھیں بلکہ ان میں سبز دھاریاں تھیں۔ ظاہر ہے اس قسم کا کپڑا زینت کے لیے پہنا جاتا ہے۔
➋ امام کو چاہیے کہ وہ اچھا لباس زیب تن کرے تاکہ اس کی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر قائم ہو۔ باطنی طہارت کے ساتھ ظاہری تجمل سونے پر سہاگا ہے، البتہ باطنی خباثت پر خوب صورت لباس ایسے ہے جیسے خنزیر کے گلے میں موتی۔ «اعاذنا اللہ من مثل السوء»
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1573   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5087  
´مہندی اور کتم لگانے کا بیان۔`
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ آپ اپنی داڑھی میں پیلے رنگ لگائے ہوئے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5087]
اردو حاشہ:
ڈاڑھی زرد کرنے سےمراد مہندی لگانا ہی ہے جیسا کہ اوپر گزرا۔ مہندی کا رنگ بھی تقریباً زرد ہی ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5087   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4065  
´سبز (ہرے) رنگ کا بیان۔`
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ پر دو سبز رنگ کی چادریں دیکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4065]
فوائد ومسائل:
سبز رنگ ایک پسندیدہ رنگ ہے، قرآن مجید نے اہل جنت کے ریشم کے سبز لباس کا ذکر فرمایا ہے، ان کی اوپرکی پوشاک باریک سبزریشم اور موٹے ریشم کی ہوگی، مگر سبز یا کسی اور رنگ کو بطورشعار وعلامت ہمیشہ کے لئے اختیار کرلینا قطعا صحیح نہیں، صرف سفیدرنگ کی ترغیب ثابت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4065   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4208  
´خضاب کا بیان۔`
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے ایک شخص سے یا میرے والد سے پوچھا: یہ کون ہے؟ وہ بولے: میرا بیٹا ہے، آپ نے فرمایا: یہ تمہارا بوجھ نہیں اٹھائے گا، تم جو کرو گے اس کی باز پرس تم سے ہو گی، آپ نے اپنی داڑھی میں مہندی لگا رکھی تھی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4208]
فوائد ومسائل:
قرآن مجید میں ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔
(بني إسرائیل: 15) یہ قاعدہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ہے، جرم کی سزا اصل مجرم ہی کو دینی چاہیئےنہ کہ ان کے عزیزو اقارب کو۔
یہ جو ہمارے ہاں بسا اوقات پولیس والے اصل مجرم کی بجائے یا مجرم کے فرار ہوجانے پر اس کے باپ یا بیٹے یا کسی دوسرے عزیز رشتے دار کو پکڑ لیتے ہیں تو یہ شر عاََ ناجائز ہے، نیز اخلاقی یا قانونی طور پر بھی اس کا کو ئی جواز نہیں، لیکن چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں اللہ کو کوئی ڈر خوف ہے نہ اخلاقی اور قانونی تقاضوں کا کوئی لحاظ، اس لیئے یہ لوگ ایسی قبیح اور گندی حرکتیں کرتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے لیئے اللہ کے ہاں نہایت ہی درد ناک عذاب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4208