65- ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں: ابورداد بیمار ہوگئے، تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کرنے کے لیے آئے ابورداد نے کہا: میرے علم کے مطابق لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھنے والے ابومحمد ہیں۔ تو سیدنا عبدارحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے: میں اللہ ہوں، میں رحمٰن ہوں، میں نے رحم (رشتہ داری) کو پیدا کیا ہے اور میں نے اس کا نام اپنے نام کے مطابق رکھا ہے، تو جو شخص اسے ملائے گا میں اس ملا کر رکھوں گا اور جو شخص اسے کاٹے گا میں اسے جڑ سے ختم کردوں گا۔“[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 65]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:840، 841، أخرجه ابن حبان فى "صحيحه"، برقم: 443، والحاكم فى "مستدركه"، برقم: 7360، وأبو داود فى "سننه"، برقم: 1694»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:65
فائدہ: صلۂ رحمی کی اہمیت و فضیات ثابت ہوتی ہے، آج کل صلۂ رحمی کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ جو آپ سے رشتہ داری جوڑ نا چاہے، آپ بھی اس سے رشتہ داری جوڑ لیں، حالانکہ صلہ رحمی میں یہ صورت بھی شامل ہے، البتہ دوسری صورت جو اس سے بھی کئی گنا اہم ہے، وہ بھی شامل ہے اور وہ یہ ہے کہ جو آپ سے رشتہ داری توڑنا چا ہے، آپ پھر بھی اس سے رشتہ داری قائم کر یں۔ لفظ رحم”رحمٰن“ سے ہے، اور لفظ ”رحمٰن“ اللہ تعالی کا نام ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 65
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1907
´قطع رحمی (ناتا توڑنے) پر وارد وعید کا بیان۔` ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوالرداد لیثی بیمار ہو گئے، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ ان کی عیادت کو گئے، ابوالرداء نے کہا: میرے علم کے مطابق ابو محمد (عبدالرحمٰن بن عوف) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے «رحم»(یعنی رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے (مشتق کر کے) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1907]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: سند میں ابوالرداد ہے، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے ”رداد“ آیا ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ”رداد“ کو بعض لوگوں نے ”ابوالرداد“ کہا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے، (تقریب التہذیب)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1907