الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا علی ابن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
1. حدیث نمبر 37
حدیث نمبر: 37
37 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي حَسَنٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ ابْنَا مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِمَا، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَي عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ»
قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي أَنَّهُ نَهَي عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ لاَ يَعْنِي نِكَاحَ الْمُتْعَةِ
37-محمد بن حنفیہ بیان کرتے ہیں: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوۂ)خیبر کے زمانے میں نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کردیا تھا۔
سفیان کہتے ہیں اس روایت سے مراد یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی مراد یہ نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نکاح متعہ سے بھی منع کیا تھا۔ (بلکہ نکاح متعہ کی حرمت کا حکم بعد میں دیا تھا)۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 37]
تخریج الحدیث: «إسناد صحيح، أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 576، وفي صحيح ابن حبان: 4140، 4143، 4145»

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 37 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:37  
فائدہ:
اس حدیث میں دومسائل بیان کیے گئے ہیں،جن کی ضروری تفصیل درج ذیل ہے۔
➊ نکاح متعہ حرام ہے: بعض امور پہلے مباح تھے لیکن بعد میں ہماری شریعت میں انھیں منسوخ کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک نکاح متعہ بھی ہے۔ نکاح متعہ کا معنی رافضیوں کی معتبر کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ایک عورت کو مقررہ وقت کے لیے مقررہ اجرت کے عوض جماع کی خاطر ٹھیکے پر لینے کا نام متعہ ہے۔ (کـافـی: 291/2) متعہ حرام ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، یہ زنا اور بدکاری ہے، اسلام کے دشمنوں نے عیش پرستی کی خاطر اس کو جائز رکھا ہوا ہے۔ اپنی ماں، بہو، اور بیٹی سے زنا کرواتے پھرتے ہیں، اب ہم زنا اور متعہ کا جامع موازنہ کرنا چاہتے ہیں، جس سے آپ پر واضح ہوگا کہ متعہ اور زنا میں کچھ بھی فرق نہیں ہے۔
① زنا میں اجرت پیشگی دی جاتی ہے، متعہ میں بھی اجرت پیشگی دی جاتی ہے۔ (تـنـبيـه الـمنكرين، ص: 29)
② زنا میں اجرت کا تعین نہیں ہوتا، متعہ میں بھی ایک مٹھی گندم یا ایک لقمہ کھانے سے لے کر لا تعداد رقم نقد ہوسکتی ہے۔ (الكافي: 194/2)
③ زنا میں تنہائی اور پوشیدگی ضروری ہے، متعہ کے لیے بھی اشتہار واعلان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (تهذيب الاحكام: 261/7)
④ زنا میں بیک وقت عورتوں کی تعداد متعین نہیں ہوتی، متعہ کے لیے بھی تعداد کا کوئی تعین نہیں ہے،خواہ ہزار عورتوں سے متعہ کرو، کیونکہ وہ تو ٹھیکے کی چیز میں ہیں۔ (الـكـافي: 191/2)
⑤ زنا بغرض رفع حاجت شہوانی ہوتا ہے نہ کہ بقائے نسل انسانی کے لیے متعہ کا مقصد بھی یہی ہے، بلکہ متعہ میں منی کا اخراج اور اس کا پھینکنا مقصد ہوتا ہے، خواہ مرد بوقت انزال منی عورت کے رحم سے باہر گرا دے۔ (تـنبيـه الـمـنكرين، ص: 6)
⑥ زنا میں جس وقت مرضی مرد چاہے بغیر طلاق دیے اپنے آپ کو عورت سے الگ کر سکتا ہے، یہی صورت حال بعینہ متعہ میں بھی پائی جاتی ہے،طلاق کی ضرورت یہاں بھی نہیں ہوتی۔ (جامع عباسی ہس: 135)
⑦ زنا میں کوئی کسی کا وارث نہیں بنتا، متعہ میں بھی کوئی کسی کا وارث نہیں بنتا۔ (فروع کافی: 193/3)
⑧ زنا میں عورت کا نان ونفقہ مرد کے ذمے نہیں ہوتا، متعہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ (جامع عباس ہس: 135) اس مسئلے پر شیخ الحدیث محمد علی جانباز رحمہ اللہ کی قیمتی کتاب حرمت متعہ کا مطالعہ مفید ہے۔
متعہ کب منسوخ ہوا؟ اس کے متعلق مختلف روایات میں بعض میں ہے کہ غزوۂٔ تبوک کے موقع پر حرام ہوا لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ (فتح الباری: 17019) صحیح موقف یہی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حرام ہوا، اس موقع پر بہت بڑا مجمع تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ غزوہ خیبر پر اس کے حرام ہونے کا اعلان فرمایا۔ (فتح الباری: 170/9) بعض راویوں نے غلط فہمی کی بنا پر غزوۂ اوطاس کا موقع بتایا ہے، حالانکہ غز وۂ اوطاس فتح مکہ کے فورا بعد ہوا ہے،اس لیے بعض راویوں نے فتح مکہ کی بجائے غزوۂ اوطاس کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری: 17019)
➋ گھریلو گدھوں کا گوشت حرام ہے: پہلے جائز تھے لیکن بعد میں حرام ہو گیا تھا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 37