344- سیدہ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں چند خواتین سمیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہاں تک تمہاری استطاعت ہوگی اور جتنی تم میں طاقت ہوگی (تم ان احکام پر عمل کروگی)“۔ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ہماری اپنی جان سے زیادہ رحم دل ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بیعت لے لیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے ساتھ مصافحہ نہیں کروں گا، میرا ایک سو خواتین کے ساتھ گفتگو کرنا اسی طرح ہے، جس طرح میں ایک خاتون کے ساتھ بات کروں۔“ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان سے یہ کہا گیا: دوسرے محدثین نے تو یہ بات بیان کی ہے کہ یہ روایت سیدہ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے، جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رشتہ دار تھیں۔ تو سفیان نے کہا: وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن کی بیٹی (بھانجی) تھیں۔ تاہم ابن المنکدر نے ہمیں یہ روایت سناتے ہوئے ان الفاظ کا تذکرہ نہیں کیا۔ [مسند الحميدي/حَدِيثُ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رَقِيقَةَ نَسِيبَةِ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا/حدیث: 344]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مالك في «الموطأ» برقم: 812، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4553، والحاكم في «مستدركه» ، برقم: 7039، 7041، والنسائي فى «المجتبى» برقم: 4192، 4201، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 7756، 7765، 8660، 8672، 9196، 11525، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1597، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2874، والبيهقي فى «سننه الكبير» ، برقم: 16665، وأحمد في «مسنده» ، برقم: 27648»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:344
فائدہ: ”قوت اور طاقت“ میں تمام فرائض و واجبات آتے ہیں، اور ان سے زائد امور میں انسان صرف اس کا مکلف ہے جن کے کرنے کی وہ طاقت رکھتا ہو۔ کوئی کم عقل یہ نہ سمجھے کہ مجھ میں تو تین نماز میں پڑھنے کی طاقت ہے، لہٰذا میں تین ہی پڑھ لیا کروں گا، یہ واضح گمراہی ہے، اور قرآن و حدیث سے بغاوت ہے۔ بیعت صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلیفہ وقت کی مشروع ہے، اب کوئی خلیفہ نہیں ہے، لہٰذا اب کسی کی بیعت نہیں ہو گی۔ آ ج کل بعض نے اپنے ماتحتوں سے بیعت لینے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے جو کہ درست نہیں ہے، اور عورت سے بیعت زبانی ہو گی، نہ کہ ہاتھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر۔ غیر محرم عورت سے جسم کو مس کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 344
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4186
´عورتوں کی بیعت کا بیان۔` امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تاکہ ہم بیعت کریں، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، نہ چوری کریں گے، نہ زنا کریں گے، اور نہ ایسی کوئی الزام تراشی کریں گے جسے ہم خود اپنے سے گھڑیں، نہ کسی معروف (بھلے کام) میں ہم آپ کی نافرمانی کریں گے، آپ نے فرمایا: ”اس میں جس کی تمہیں استطاعت ہو یا قدرت ہو“، ہم نے عرض کیا: الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4186]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا ہے کہ عورتوں اور مردوں سے بیعت لینے میں فرق ہے۔ دونوں کی بیعت ایک جیسی نہیں ہے، یعنی بیعت کے وقت عورتوں سے ہاتھ ملانا حرام اور ناجائز ہے جبکہ مردوں سے حلال اور جائز ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے ہاتھ ملا کرصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیعت لی تھی۔ قرآن و حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (2) رسول اﷲ ﷺ غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے اگرچہ ضرورت کا تقاضا بھی ہوتا جیسا کہ آپ نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت صرف زبان سے بیعت لینے پر اکتفا فرمایا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اﷲ کی قسم! بیعت لیتے ہوئے بھی رسول اﷲ ﷺ کا ہاتھ مبارک کبھی کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔ (صحيح البخاري،التفسير،حديث:4891) بنا بریں کسی بھی نیک وپارسا اور برادری وغیرہ کے کے معزز اور بڑے شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی غیر محرم عورت کے سر پر ہاتھ پھیرے یا کسی سے مصافحہ وغیرہ کرے۔ (3) نبی ﷺ کا جو حکم امت کے کسی ایک مرد یا ایک عورت کے لیے ہوتا ہے وہ امت کے تمام مردوں اور عورتوں کو شامل ہوتا ہے الا یہ کہ نبی ﷺ کسی کے لیے خود تخصیص فرما دیں۔ (4)”عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا“ نبی ﷺ کے اس طرز عمل میں ان نام نہاد پیروں کے لیے درس عبرت ہے جو مردوں عورتوں سے بلا امتیاز دستی بیعت لیتے ہیں۔ اگر یہ جائز ہوتا تو رسول ﷲ ﷺ اس سے پرہیز نہ فرماتے۔ اسی طرح مجالس وعظ و سماع میں عورتوں کا مردوں کے سامنے بلا جحاب بیٹھنا بھی شرعی مزاج سے متصادم ہے۔ (5)”الگ الگ بات چیت کروں“ مقصود یہ ہے کہ زبانی بیعت بھی الگ الگ عورت سے نہیں ہوگی بلکہ تمام عورتوں سے بیک وقت زبانی عہد لیا جائے گا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4186
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2874
´عورتوں کی بیعت کا بیان۔` امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں کچھ عورتوں کے ہمراہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کرنے آئی، تو آپ نے ہم سے فرمایا: ”(امام کی بات سنو اور مانو) جہاں تک تمہارے اندر طاقت و قوت ہو، میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2874]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) حضرت امیمہ رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت خدیجہ کی بھانجی تھیں۔ ان کی والدہ رقیقہ بنت خویلد ام المومنین خدیجہ بنت خویلد ؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ حضرت امیمہ کے والد کا نام عبداللہ بن بجاد تیمی تھا۔ دیکھیے: (تقريب التهذيب: 8634)
(2) بیعت عورتوں سے بھی لی جا سکتی ہے۔
(3) مرد کے لیے غیر محرم عورت سے مصافحہ کرنا جائز نہیں۔
(4) عورتوں سے بیعت میں پردے کے شرعی احکام کی پابندی لازمی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2874
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1597
´عورتوں کی بیعت کا بیان۔` امیمہ بنت رقیقہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کئی عورتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، آپ نے ہم سے فرمایا: ”اطاعت اس میں لازم ہے جو تم سے ہو سکے اور جس کی تمہیں طاقت ہو“، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہم پر خود ہم سے زیادہ مہربان ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے بیعت لیجئے (سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: ان کا مطلب تھا مصافحہ کیجئے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سو عورتوں کے لیے میرا قول میرے اس قول جیسا ہے جو ایک عورت کے لیے ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1597]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: زبان ہی سے بیعت لینا عورتوں کے لیے کافی ہے مصافحہ کی ضرورت نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1597