الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات
106. حدیث نمبر 262
حدیث نمبر: 262
262 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ الْعَبُ بِهَذِهِ الْبَنَاتِ، وَكُنَّ جَوَارِيَ يَأْتِيَنِّي يَلْعَبْنَ مَعِي بِهَا، فَلَمَّا رَأَيْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقَمَّعْنَ «فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَرِّبُهُنَّ إِلِيَّ»
262- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں گڑیاؤں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی میری سہلیاں میرے پاس آیا کرتی تھیں اور وہ بھی میرے ساتھ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتی تھیں، جو جاکر چھپ جاتی تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میری طرف بھجوادیا کرتے تھے۔
[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 262]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الأدب 6130، باب: الانبساط إلى الناس، ومسلم فى فضائل الصحابة 2440، باب: فضل عائشة - رضي الله عنها -وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4908 وفي صحيح ابن حبان، برقم 5863، 5865، 5866. وانظر الكبري للنسائي 305/5 برقم 8946»

   صحيح البخاريألعب بالبنات عند النبي وكان لي صواحب يلعبن معي فكان رسول الله إذا دخل يتقمعن منه فيسربهن إلي فيلعبن معي
   صحيح مسلميسربهن إلي
   سنن أبي داودألعب بالبنات فربما دخل علي رسول الله وعندي الجواري فإذا دخل خرجن وإذا خرج دخلن
   سنن النسائى الصغرىتزوجني رسول الله وأنا بنت ست دخل علي وأنا بنت تسع سنين ألعب بالبنات
   سنن ابن ماجهيسرب إلي صواحباتي يلاعبنني
   مسندالحميديفكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسربهن إلي

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 262 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:262  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچے کا غذ اور کپڑے کی بنی ہوئی گڑیوں سے کھیل سکتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 262   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3380  
´نو برس کی عمر میں بچی کی رخصتی کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی اس وقت میں چھ برس کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو اس وقت میں نو برس کی ہو چکی تھی اور بچیوں (گڑیوں) کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3380]
اردو حاشہ:
(1) موسمی حالات اور اپنی جسمانی عمدگی کی بنا پر نو سال کی عمر میں بالغ ہوچکی تھیں‘ لہٰذا رخصتی میں کوئی اشکال نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھییے‘ احادیث: 3357 تا 3360)
(2) [وَكُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ] بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا ہے: میں لڑکیوں میں کھیلا کرتی تھی جب کہ ان الفاظ کا راجح مفہوم وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے‘ یعنی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں اسی مفہوم کی تصریح موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ فضائل الصحابة‘ حدیث: 2440)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3380   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1982  
´عورتوں سے اچھے سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، تو آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1982]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لڑکیوں کا گڑیوں کے ساتھ کھیلنا جائز ہے۔

(2)
بچوں کو جائز کھیل کھیلنے کا موقع دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1982   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6287  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گڑیوں سے کھیلی تھی اور میری سہیلیاں آتیں تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی ہیبت وحیا) سے چھپ جاتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6287]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ينقمعن:
وہ گھر کے اندر چھپ جائیں۔
(2)
يسربهن:
آپ انہیں بھیجتے کہ جاؤ کھیلو۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
بچیوں کا گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے اور ظاہر بات ہے کہ بچیاں اپنے طور پر جو گڑیا بناتی ہیں،
وہ محض ایک بھونڈی نقالی ہوتی ہے،
جس کو تصویر کا نام نہیں دیا جا سکتا،
ہاں تصویری خاکہ ہوتا ہے،
اس لیے اس پر کارخانوں میں بڑی مہارت اور تکنیک سے تیار شدہ گڑیوں کو قیاس کرنا درست نہیں ہے،
کیونکہ وہ تو ہو بہو نقالی ہوتی ہے،
یعنی نقل مطابق اصل ہوتی ہے اور لوگ ان کو گھروں میں آرائش و زیبائش (ڈیکوریشن)
کے لیے رکھتے ہیں،
اس لیے ان گڑیوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6287   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6130  
6130. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی موجودگی میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ میری بہت سی سہلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اللہ ﷺ گھر داخل ہوتے تو وہ چھپ جاتیں۔ آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیجتے پھر وہ میرے ساتھ کھیل میں مصروف ہو جاتیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6130]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے بچوں کے لئے گڑیوں سے کھیلنا بالاتفاق جائز رکھا گیا ہے اور گڑیوں کو ان مورتوں میں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے جن کا بنانا حرام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6130   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6130  
6130. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی موجودگی میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ میری بہت سی سہلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اللہ ﷺ گھر داخل ہوتے تو وہ چھپ جاتیں۔ آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیجتے پھر وہ میرے ساتھ کھیل میں مصروف ہو جاتیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6130]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں:
پہلا لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور دوسرا اپنے اہل خانہ سے خوش طبعی کرنا۔
اس حدیث میں اپنے اہل خانہ سے خوش طبعی کا بیان ہے۔
اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس گھر آئے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ لٹکا ہوا تھا۔
ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اٹھا دی۔
اس وقت سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا:
یہ میری گڑیاں ہیں۔
آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے۔
آپ نے پوچھا:
میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا:
یہ گھوڑا ہے۔
آپ نے پوچھا:
اس کے اوپر کیا ہے؟ میں نے کہا:
اس کے دو پر ہیں۔
آپ نے فرمایا:
کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جواب پر اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں۔
(سنن أبي داود، الأدب،حدیث: 4932)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوش طبعی کا یہ ایک نمونہ ہے۔
کتب احادیث میں بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
نوٹ:
بچوں اور بچیوں کو گڑیوں سے کھیلنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ یہ ان کا فطری حق ہے مگر ضروری ہے کہ ان کی تفریحات شریعت کے مزاج کے خلاف نہ ہوں۔
بچیاں اگر اپنے طور پر ہاتھ سے گڑیاں گڈے بنائیں تو جائز ہے، تاہم خیال رہے کہ دور حاضر میں ان کھلونوں کی جو ترقی یافتہ جدید صورت ہے کہ پلاسٹک وغیرہ سے بنے ہوئے کھلونے نقل مطابق اصل ہوتے ہیں ان کے متعلق ہمارا رجحان ہے کہ یہ جائز نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ انہیں گھروں میں بطور آرائش نمایاں کر کے رکھا جاتا ہے، اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6130