1255- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجوریں لائی گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر آرام دہ حالت میں (یعنی پاؤں کے بل) بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے انہیں کھا رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2044، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6711، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3771، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2106، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14768، وأحمد فى «مسنده» برقم: 13058، 13302، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 3647، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24986، والترمذي فى "الشمائل"، 142، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 7138»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1255
فائدہ: اس حدیث میں کھانا بیٹھ کر کھانے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے بعض روایات میں (مقعیا) کے الفاظ ہیں۔ (صـحـيـح مـسـلـم: 2044) اس کے معنی ہیں: پنڈلی اور ران کو ملا کر کولہوں پر بیٹھنا۔ (نیز دیکھیں: ارواء الغليل: 29/7) آہستہ آہستہ کھانا کھانا اچھا نہیں ہے، بلکہ جلدی جلدی کھانا کھانا چاہیے، کھجور کھانے کو زندگی کا معمول بنا نا چا ہیے، اس کے بہت سے فوائد ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1253
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3771
´ٹیک لگا کر کھانا کھانا کیسا ہے؟` مصعب بن سلیم کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کہیں) بھیجا جب میں لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ کو پایا کہ آپ کھجوریں کھا رہے ہیں، سرین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں پاؤں کھڑا کئے ہوئے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3771]
فوائد ومسائل: توضیح: (إقعاء) یعنی اس طرح زمین پر بیٹھ جانا کہ پنڈلیاں سامنے کھڑی ہوں۔ اس صورت میں بعض اوقات پیچھے سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ لہذا اس سے یہ استشہاد کیا جا سکتا ہے۔ کہ بیماری اور کمزوری وغیرہ کی صورت میں سہارا لینا جائز ہے۔ فتح الباری میں ہے کہ ایک روایت میں (مقع) کی بجائے (محتفز) کا لفظ آیا ہے۔ یعنی اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے۔ بہرحال عام روایات سے ثابت ہے کہ سہارا لے کر (ٹیک لگا کر) کھانا سنت کے خلاف ہے۔ علامہ خطابی خوب جم کر اور بکھر کر کے بیٹھنے کو بھی (اتکا) میں شمار کرتے ہیں۔ جیسے کہ آلتی پالتی مار کر بیٹھنا کہ اس صورت میں انسان بہت زیادہ کھانا کھا لیتا ہے۔ الا یہ کہ کوئی عذرہو۔ علمائے کرام (غزالی وغیرہ) افضل صورت یہ بتاتے ہیں کہ گھٹنوں کے بل بیٹھے یا دایاں گھٹنا کھڑا کیا ہو۔ اور بایئں پر بیٹھ جائے جیسے کہ بعض دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3771
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5331
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرین کے بل بیٹھ کر، پنڈلیاں کھڑی کرکے کھجوریں کھاتے دیکھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5331]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانا تواضع اور انکساری کے ساتھ کھاتے تھے، متکبرین اور ان لوگوں کی طرح نہیں کھاتے تھے جو کھانا پینا ہی مقصد زندگی سمجھتے ہیں اور ایسے طریقہ سے بیٹھتے ہیں، جس سے خوب کھایا جا سکے، اس لیے آپ پوری طرح چوکڑی مار کر، خوب کھانے کے لیے نہیں بیٹھتے تھے، بلکہ جلدی جلدی فارغ ہونے کی کوشش کرتے تھے۔