1233- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ (بلند آواز میں) قرأت کا آغاز سورۃ فاتحہ کے ذریعے کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 743، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 399، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 491، 492، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1798، 1799، 1800، 1802، 1803، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 859، 861، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 901، 902، 905، 906 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 977، 978، 980، 981، وأبو داود فى «سننه» برقم: 782، والترمذي فى «جامعه» برقم: 246، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1276، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 813، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2453، 2454، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12173، 12267، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2881، 2980، 2981»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 219
´نماز میں سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز` «. . . وعن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم وابا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين . . .» ”. . . حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب نماز کا آغاز «الحمد لله رب العالمين» سے کرتے تھے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 219]
لغوی تشریح: «لَا يَذْكُرُونَ بِسْمِ اللهِ» بسم اللہ ذکر نہیں کرتے تھے۔ یہ فقرہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مطلقاً بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہ تو صرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ کو جہری (بآواز بلند) نہیں پڑھتے تھے۔ «يُسِرُّوْنَ» «إسرار» سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بسم اللہ بغیر آواز نکالے آہستہ آہستہ پڑھتے تھے۔ «وَعَلٰي هٰذَا» بسم اللہ کو بے آواز، یعنی سراً پڑھنے پر۔ «يُحْمَلُ» صیغہ مجہول۔ محمول کیا جائے گا۔ «النَّفْيُ» بسم اللہ کی نفی کو۔ «فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ» مسلم کی وہ روایت جو ابھی بیان کی گئی ہے۔ «خِلَافًا لِمَنْ أَعَلَّهَا» یعنی جو شخص یہ کہتا ہے کہ صحیح مسلم میں بسم اللہ کی نفی کا جو اضافہ ہے یہ معلول ہے، وہ اس (سراً بسم اللہ پڑھنے والی) توجیہ کی مخالفت کرتا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے کہ نفی کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، تاہم یہ روایت معلول ہو گی۔ لیکن اس بات کے ذریعے سے اس حدیث کے معلول ہونے کی دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ علت دراصل یہ ہے کہ امام اوزاعی نے یہ اضافہ قتادہ کے واسطے سے مکا تبتاً نقل کیا ہے، حالانکہ یہ علت درست نہیں کیونکہ اوزاعی اس کے روایت کرنے میں تنہا نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی اس کو روایت کرنے والے ہیں جن کی روایت صحیح ہے، لہٰذا نفی کی وہ تاویل صحیح ہے جو پہلے گزر چکی ہے۔ [تحفة الأحوذي: 204/1] فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ سے قرأت کا آغاز کرتے اور بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے۔ ➋ بعض روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا بھی ثبوت ہے، اس لیے بسم اللہ کو آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، تاہم اکثر اور زیادہ صحیح روایات کی رو سے آہستہ پڑھنا ہی ثابت ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 219
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 903
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 903]
903 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ثابت ہوا کہ ہر رکعت میں قرأت کی ابتدا سورۂ فاتحہ سے ہو گی کیونکہ یہ نماز میں فرض ہے۔ یہ دوسری قرأت کی جگہ کفایت کر سکتی ہے۔ کوئی اور سورت اس کی جگہ کفایت نہیں کرے گی (جیسے فرض نماز کی آخری ایک یا دو رکعتیں)۔ ➋ اس روایت سے «بسم الله الرحمن الرحيم» بلند آواز سے یا مطلقاً نہ پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے مگر یہ استدلال قوی نہیں کیونکہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سورۂ فاتحہ کے نام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری، حدیث: 506، میں ہے۔ اور «بسم الله الرحمن الرحيم» چونکہ فاتحہ کا جز ہے، اس لیے وہ ضرور پڑھی جائے گی، نیز یہ حدیث «بسم الله الرحمن الرحيم» کے آہستہ پڑھنے کے تو قطعاً منافی نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل «بسم الله الرحمن الرحيم» کو آہستہ پڑھنے کا ہے اور «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» سے آپ بلند آواز سے قرأت شروع فرماتے، لہٰذا مالکیہ کا «بسم الله الرحمن الرحيم» کو مطلقاً نہ پڑھنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 903
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 904
´سورت سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی تو ان لوگوں نے «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کی۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 904]
904 ۔ اردو حاشیہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ سب «بسم الله الرحمن الرحيم» آہستہ پڑھتے تھے۔ اسی سے استدلال کیا گیا ہے کہ «بسم الله» کا آہستہ پڑھنا افضل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 904
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 246
´”الحمدللہ رب العالمین“ سے قرأت شروع کرنے کا بیان۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم «الحمد لله رب العالمين» سے قرأت شروع کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 246]
اردو حاشہ: 1؎: جو لوگ ﴿بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ کے جہر کے قائل نہیں ہیں وہ اسی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم سبھی قرأت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے شروع کرتے تھے، اور جہر کے قائلین اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے مراد سورہ فاتحہ ہے نہ کہ خاص یہ الفاظ، حدیث کامطلب ہے کہ یہ لوگ قرأت کی ابتدا سورہ فاتحہ سے کرتے تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 246
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 890
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے ان میں سے کسی سے بلند آواز میں ﴿بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ﴾ کی قراءت نہیں سنی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:890]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین عام طور پر ﴿ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ آہستہ آواز سے پڑھتے تھے شوافع نے اس حدیث کے مختلف معانی بیان کیے ہیں اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کے نزدیک بسملہ سورہ فاتحہ کا جز ہے اس لیے جب سورۃ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے تو اس کو بھی بلند آواز سے پڑھنا چاہے اور سنن دارقطنی اور سنن بیہقی کی روایت ہے: (عَن أَبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَال: قَالَ رَسُولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم: «إِذَا قَرَأْتُمُ «الْحَمْدُ للهِ» فَاقْرَءُوا ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ )(الحدیث) لیکن اس روایت میں بسملہ کا فاتحہ کا جزو ہونا ثابت ہوتا ہے اور بلند سے قرآءت کرنا ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اس کو دونوں طرح پڑھنا صحیح ہے۔ (اس مختصر میں دلائل دینے کی گنجائش نہیں ہے) تفصیل کے لیے مولانا میر سیالکوٹی کی واضح البیان دیکھئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 890
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 892
حضرت عبدہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کلمات بلند آواز سے پڑھتے تھے، (سُبْحَانَكَ اللهم! وَبِحَمْدِكَ وَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالىٰ جَدُّكَ، وَلاَ إِلهَ غَيْرُكَ)(اے اللہ! تو اپنی حمد و توصیف کے ساتھ، پاکیزگی و تقدس سے متصف ہے، تیرا نام ہی بابرکت ہےاور تیری عظمت و بزرگی بلند و بالا ہے، تیرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں)۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتادہ کو بتایا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ، ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ نماز کا آغاز ﴿اَلْحَمْدُ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:892]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سورہ فاتحہ کا نام ہے تو مقصد یہ ہوا کہ وہ قرآءت کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرتے تھے اور بِسمِ اللہِ فاتحہ کا جزو ہے راوی نے چونکہ ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کو سورہ کا نام کی بجائے آیت سمجھ لیا۔ اس لیے یہ کہہ دیا کہ وہ ﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾ نہیں پڑھتے تھے۔ (تفصیل کے لیے مولانا میر سیالکوٹی کی واضح البیان دیکھئے۔ )
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 892
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 743
743. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نماز کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:743]
حدیث حاشیہ: یعنی قرآن کی قرات سورۃ فاتحہ سے شروع کرتے تھے تو یہ منافی نہ ہو گی اس حدیث کے جو آگے آتی ہے۔ جس میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا منقول ہے اور ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے سورۃ فاتحہ مراد ہے۔ اس میں اس کی نفی نہیں ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے کیونکہ بسم اللھ سورۃ فاتحہ کی جزو ہے تو مقصود یہ ہے کہ بسم اللہ پکار کر نہیں پڑھتے تھے۔ جیسے کہ نسائی اور ابن حبان کی روایت میں ہے کہ بسم اللہ کو پکار کر نہیں پڑھتے تھے۔ روضہ میں ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ جہری نمازوں میں پکار کر اورسری نمازوں میں آہستہ اور جن لوگوں نے بسم اللہ کا نہ سننا نقل کیا ہے وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کم سن تھے جیسے انس ؓ اور عبداللہ بن مغفل اور یہ آخری صف میں رہتے ہوں گے، شاید ان کو آواز نہ پہنچی ہو گی اور بسم الله کے جہر میں بہت حدیثیں وارد ہیں۔ گو ان میں کلام بھی ہو مگر اثبات مقدم ہے نفی پر۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 743
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:743
743. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ نماز کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:743]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا اصول ہے کہ جہاں قوی روایات کی وجہ سے حکم میں اختلاف ہو وہاں اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں لگاتے۔ (2) امام مالک ؒ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنے کے قائل نہیں ہیں، اگر کوئی پڑھ لے تو اسے جائز قرار دیتے ہیں جبکہ جمہور علماء کا فیصلہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح، تعوذ اور بسمله پڑھنا سنت ہے۔ امام بخاری کا رجحان امام مالک کے موقف کی طرف ہے، اس لیے آپ نے دونوں قسم کی روایات کو جمع کردیا ہے۔ حدیث انس ؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا آغاز ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کیا جائے جبکہ اس کے بعد حدیث ابو ہریرہ ؓ کو ذکر کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دعائے افتتاح پڑھی جا سکتی ہے۔ (3) اب یہ مسئلہ کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہیے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک ؒ کے نزدیک بسم اللہ بآواز بلند یا آہستہ کسی طرح بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ بسم اللہ پڑھی جائے۔ وہ مذکورہ روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ قراءت کا افتتاح ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ سے کرنا چاہیے۔ جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔ پھر بسم اللہ پڑھنے والوں میں اختلاف ہے کہ اسے آہستہ پڑھنا چاہیے یا اونچی آواز سے، آہستہ پڑھنے والوں کے دلائل حسب ذیل ہیں: ٭حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی۔ میں نے ان میں سے کسی کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 890(399) امام نووی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ”اس شخص کی دلیل جو بسم اللہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتا۔ “ ایک دوسری روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بآواز بلند بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں پڑھتے تھے۔ (مسندأحمد: 179/3) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ یہ حضرات آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة، باب ذکرالدلیل علی أن انسَا......: 1/250) بعض روایات میں بسم اللہ پڑھنے کی نفی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس نفی کو بآواز بلند پڑھنے پر محمول کیا جائے، یعنی وہ بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے۔ (فتح الباري: 295/2) اور جو حضرات بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں: حضرت ابو ہریرہ ؓ نے ایک دفعہ نماز پڑھائی تو پہلے انھوں نے بسم اللہ پڑھی، اس کے بعد سورۂ فاتحہ تلاوت کی، اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!یقینامیں نماز ادا کرنے میں رسول اللہ ﷺ سے بہت مشابہ ہوں۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي، باب افتتاح القراءة في الصلاة….. 2/46) ٭حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز پڑھی تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اونچی آواز سے پڑھی اور فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی اقتدا کررہا ہوں۔ (سنن الدارقطني، باب وجوب قراءة "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" في الصلاة…… 1/307۔ 308) ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آہستہ اور اونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہے، البتہ پوشیدہ پڑھنے کے متعلق احادیث زیادہ صحیح اور واضح ہیں۔ ہاں، جن احادیث میں بسم اللہ کا ذکر نہیں انھیں راوی کے عدم علم یا اس کی قراءت کے مخفی ہونے پر محمول کیا جائے گا اور جن روایات میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا ذکر ہے انھیں اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ بعض اوقات بآواز بلند بھی پڑھتے تھے تاکہ لوگوں کو اس کی مشروعیت کا پتہ چل جائے۔ یاد رہے کہ بسم اللہ، سورۂ فاتحہ کی ایک آیت ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 1183)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 743
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود782
... انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ «الحمد لله رب العالمين» سے قرآت شروع کرتے تھے ... [ابوداود 782]
محدثین کے ابواب ”پہلے اور بعد؟!“
سوال:
الیاس گھمن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اہلحدیث جو ہیں وہ منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم دیوبندی ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں۔
اور وہ ایک قاعدہ و قانون بتاتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین اپنی احادیث کی کتابوں میں پہلے منسوخ روایات کو یا اعمال کو لائے ہیں پھر اُنھوں نے ناسخ روایات کو جمع کیا ہے۔
کیا واقعی یہ بات درست ہے؟
اور وہ مثال دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر نہ کرنے کی روایات ذکر کی ہیں یعنی رفع الیدین منسوخ ہے اور رفع الیدین نہ کرنا ناسخ ہے، اسی طرح محدثین نے پہلے فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں، اہلِ حدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم ناسخ پر۔
کیا …… الیاس گھمن صاحب نے جو قاعدہ و قانون بیان کیا ہے وہ واقعی محدثینِ جمہور کا قاعدہ ہے اور دیوبندیوں کا اس قانون پر عمل ہے اور اہل حدیث اس قانون کے مخالف ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ الجواب:
گھمن صاحب کی مذکورہ بات کئی وجہ سے غلط ہے، تاہم سب سے پہلے تبویبِ محدثین کے سلسلے میں دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں:
1) امام ابو داود نے باب باندھا: «بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْجَهْرَ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» [سنن ابي داود ص 122، قبل ح 782]
اس کے بعد امام ابو داود نے دوسرا باب باندھا: «بَابُ مَنْ جَهَرَ بِهَا» [سنن ابي داود ص 122، قبل ح 786]
یعنی امام ابو داود نے پہلے «بسم الله الرحمٰن الرحيم عدمِ جهر»( «سراً فى الصلوٰة») والا باب لکھا اور بعد میں «بسم الله بالجهر» والا باب باندھا تو کیا گھمن صاحب اور اُن کے ساتھی اس بات کے لئے تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اور اگر نہیں تو پھر اُن کا اُصول کہاں گیا؟! تنبیہ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہے۔ دیکھئے [سنن الترمذي ص 67۔68 قبل ح 244، 245]
2) امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب باندھا: «بَابُ مَا جَاءَ فِي الوِتْرِ بِثَلَاثٍ» [سنن الترمذي ص 122، قبل ح 459]
پھر بعد میں باب باندھا: «بَابُ مَا جَاء َ فِي الوِتْرِ بِرَكْعَةٍ» [سنن الترمذي قبل ح 461]
کیا گھمن صاحب اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رُو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟!
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 250 تا 259) تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 482 تا 488) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 482