الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند الحميدي
بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول متفرق روایات
57. حدیث نمبر 1181
حدیث نمبر: 1181
1181 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ آبَاطَ الْمَطِيِّ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَلَا يَجِدُونَ عَالِمًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِينَةِ»
1181- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: عنقریب وہ وقت آئے گا جب لوگ علم کے حصول کے لیے اونٹوں کے جگر پگھلادیں گے لیکن انہیں کوئی ایسا عالم نہیں ملے گا جو مدینہ کے عالم سے زیادہ علم رکھتا ہو۔

[مسند الحميدي/بَابٌ جَامِعٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ/حدیث: 1181]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3736، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 306، 307، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4277، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2680، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1842، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8095، والبزار فى «مسنده» برقم: 8925، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 4016، 4017، 4018»

   جامع الترمذييوشك أن يضرب الناس أكباد الإبل يطلبون العلم فلا يجدون أحدا أعلم من عالم المدينة
   مشكوة المصابيحيوشك ان يضرب الناس اكباد الإبل يطلبون العلم فلا يجدون احدا اعلم من عالم المدينة
   مسندالحميدييوشك أن يضرب الناس آباط المطي في طلب العلم فلا يجدون عالما أعلم من عالم المدينة

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1181 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1181  
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علم قیامت تک چلتا رہے گا، اور علم کے طالب دور دراز کا سفر کرتے رہیں گے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ منورہ علم کا سر چشمہ تھا، ہے اور رہے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1179   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 246  
´حصول علم کی ترغیب`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن أبي هُرَيْرَة رِوَايَةً: «يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالم الْمَدِينَة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ فِي جَامِعِهِ. قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: إِنَّهُ مَالِكُ بْنُ أنس وَمثله عَن عبد الرَّزَّاق قَالَ اسحق بْنُ مُوسَى: وَسَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ قَالَ: هُوَ الْعُمَرِيُّ الزَّاهِدُ وَاسْمُهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عبد الله . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، (فرماتے ہیں) قریب ہے وہ زمانہ کہ لوگ علم حاصل کرنے کے لئے اونٹوں کے جگروں کو ماریں گے، یعنی اونٹوں کو نہایت تیزی کے ساتھ سفروں میں چلائیں گے اور علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز ملکوں کا سفر کریں گے مگر مدینہ کے عالم سے کسی بڑے عالم کو کہیں نہیں پائیں گے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ابن عیینہ اور عبدالرزاق نے کہا ہے کہ مدینے کے بڑے عالم سے مراد امام مالک بن انس ہیں، اور اسحاق بن موسی کا بیان ہے کہ میں نے ابن عیینہ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ عالم مدینہ سے عمری زاہد مراد ہیں یعنی عمر کے خاندان سے جن کا نام حضرت عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 246]
تحقیق الحدیث:
اس کی سند ضعیف ہے۔
◄ اس میں ابن جریج اور ابوالزبیر المکی دونوں مدلس ہیں اور روایت «عن» سے ہے، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
[الانتقاء لابن عبدالبر ص20] میں اس کا ایک منقطع (یعنی ضعیف) شاہد بھی ہے۔

فائدہ:
جب یہ روایت ضعیف ہے تو پھر یہ کہنا کہ اس سے مراد فلاں ہیں یا فلاں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
◄ یہ بالکل برحق ہے کہ امام مالک بہت بڑے ثقہ امام تھے اور عبدالعزیز بن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر العمری بھی ثقہ تھے، لیکن پہلے حدیث کا صحیح ہونا ضروری ہے، اس کے بعد ہی فقہ الحدیث پر غور ہو سکتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 246   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2680  
´عالم مدینہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے، لیکن (کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2680]
اردو حاشہ:
وضاحت:
نوٹ:
(سند میں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں،
اورروایت عنعنہ سے ہے،
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے،
مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط،
اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2680