1178- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میرے نام کے مطابق نام رکھ لو لیکن میری کنیت کے مطابق کنیت اختیار نہ کرو“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 110، 3539، 6188، 6197، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2134، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5812، 5814، 5815، 5817، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4209، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4965، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2841، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2735، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3735، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19381، 19382، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7494، 7495، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6063، 6102»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1178
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام یعنی محمد، أحمد یا اکیلا محمد یا اکیلا أحمد نام رکھنا درست ہے، کیونکہ ان کے معنی تعریف کے ہیں، لیکن کوئی ”ابوالقاسم“ کنیت نہیں رکھ سکتا، کیونکہ جب وہ یہ کنیت رکھے گا تو احتمال واقع ہو جائے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ا ”بوالقاسم“ کنیت رکھنا درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1176
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 110
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے ` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي، وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ . . .» ”. . . ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:: 110]
� تشریح: ان مسلسل احادیث کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگ غلط بات منسوب کر کے دنیا میں خلق کو گمراہ نہ کریں۔ یہ حدیثیں بجائے خود اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عام طور پر احادیث نبوی کا ذخیرہ مفسد لوگوں کے دست برد سے محفوظ رہا ہے اور جتنی احادیث لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیں تھیں ان کو علماءحدیث نے صحیح احادیث سے الگ چھانٹ دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ خواب میں اگر کوئی شخص میری صورت دیکھے تو وہ بھی صحیح ہونی چاہئیے، کیونکہ خواب میں شیطان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں نہیں آ سکتا۔ موضوع اور صحیح احادیث کو پرکھنے کے لیے اللہ پاک نے جماعت محدثین خصوصاً حضرت امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما جیسے اکابر امت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اس فن کی وہ خدمت کی کہ جس کی امم سابقہ میں نظیر نہیں مل سکتی، علم الرجال و قوانین جرح و تعدیل وہ ایجاد کئے کہ قیامت تک امت مسلمہ ان پر فخر کیا کرے گی، مگر صد افسوس کہ آج چودہویں صدی میں کچھ ایسے بھی متعصب مقلد جامد وجود میں آ گئے ہیں جو خود ان بزرگوں کو غیرفقیہ ناقابل اعتماد ٹھہرا رہے ہیں، ایسے لوگ محض اپنے مزعومہ تقلیدی مذاہب کی حمایت میں ذخیرہ احادیث نبوی کو مشکوک بنا کر اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ان کو نیک سمجھ دے۔ آمین۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرفقیہ زود رنج بتلانے والے خود بے سمجھ ہیں جو چھوٹا منہ اور بڑی بات کہہ کر اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مقام کی تفصیل میں جاتے ہوئے صاحب انوارالباری نے جماعت اہل حدیث کو باربار لفظ جماعت غیرمقلدین سے جس طنز و توہین کے ساتھ یاد کیا ہے وہ حد درجہ قابل مذمت ہے مگر تقلید جامد کا اثر ہی یہ ہے کہ ایسے متعصب حضرات نے امت میں بہت سے اکابر کی توہین و تخفیف کی ہے۔ قدیم الایام سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ معاندین نے تو صحابہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ حضرت ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، انس بن مالک وغیرہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ ٹھہرایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 110
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3539
3539. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ابو لقاسم ﷺ نے فرمایا: ”میرا نام تو رکھ لیا کرو لیکن میری کنیت اختیار نہ کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3539]
حدیث حاشیہ: حافظ ؒ نے کہا: بعضوں کے نزدیک یہ مطلقاً منع ہے۔ بعضوں نے کہا کہ یہ ممانعت آپ کی زندگی تک تھی۔ بعض نے کہا جمع کرنا منع ہے یعنی محمد ابوالقاسم نام رکھنا۔ قول ثانی کو ترجیح ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3539
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6188
6188. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھ لو لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6188]
حدیث حاشیہ: آپ کی حیات طیبہ میں یہ ممانعت تھی تاکہ اشتباہ نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6188
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6197
6197. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت اختیار نہ کرو۔ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ اور جس نے مجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6197]
حدیث حاشیہ: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت میں سے ہے کہ شیطان آپ کی صورت میں نظر نہیں آسکتا تاکہ وہ آپ کا نام لے کر خواب میں کسی سے کوئی جھوٹ نہ بول سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے والا یقینا جان لیتا ہے کہ میں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیکھا ہے اور یہ امر دیکھنے والے پر کسی نہ کسی طرح سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ دوزخ کی وعید اس کے لئے ہے جو خواہ مخواہ جھوٹ موٹ کہے۔ میں نے آپ کو خواب میں دیکھا ہے یا کوئی جھوٹی بات گھڑ کر آپ کے ذمہ لگائے۔ پس جھوٹی احادیث گھڑ نے والے زندہ دوزخی ہیں۔ أعاذنا اللہ منھم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6197
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4965
´آدمی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھے تو کیسا ہے؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوصالح نے ابوہریرہ سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسی طرح ابوسفیان، سالم بن ابی الجعد، سلیمان یشکری اور ابن منکدر وغیرہ کی روایتیں بھی ہیں جو جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اسی طرح ہے (یعنی اس میں بھی یہی ہے کہ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4965]
فوائد ومسائل: رسول اللہ ﷺ کے حین حیات یہ کنیت اختیار کر نا جائز نہیں تھا، مگر آپ کے بعد علماء نے اجازت دے دی ہے کہ آپ ﷺ کا نام اور رکنیت دونوں رکھے جا سکتے ہیں۔ زندگی میں ممانعت کی وجہ یہ واقعہ تھا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ بازار میں تھے کہ ایک شخص نے ابولقاسم کہہ کر آواز دی، آپ نے پیچھت مڑکر دیکھا تو آواز دینے والے نے کہا کہ میں نے آپ کو آواز نہیں دی میں نے تو فلاں شخص کو آواز دی ہے۔ اس واقعے کے بعد آپ نے یہ رکنیت رکھنے سے روک دیا۔ (فتح الباری الاداب حدیث٦١٨٨ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری ملاخطہ ہو) جواز کے دلائل اگلےابواب میں آرہے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4965
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2841
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ رکھنا مکروہ ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آپ کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ جمع کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2841]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کا کہنا ہے کہ آپﷺ کی زندگی میں یہ چیز ممنوع تھی، آپﷺ کے بعد آپﷺ کا نام اورآپﷺ کی کنیت رکھنا درست ہے، بعض کا کہنا ہے کہ دونوں ایک ساتھ رکھنا منع ہے، جب کہ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کا تعلق صرف کنیت سے ہے، پہلا قول راجح ہے۔ (دیکھئے اگلی دونوں حدیثیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2841
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:110
110. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”میرے نام (محمد اور احمد) پر نام رکھو مگر میری کنیت (ابوالقاسم) پر کنیت نہ رکھو۔ اور یقین کرو جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے یقیناً مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ اور جو دانستہ مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:110]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند ہے۔ نیند میں جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص نہ دیکھنے کے باوجود کہے کہ میں نے آپ کوخواب میں دیکھا ہے۔ اول تو جھوٹ کسی معاملے میں جائز ہی نہیں۔ اگراس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہو تو اس کی سنگینی حرمت اور بڑھ جاتی ہے۔ احادیث میں ہے کہ جھوٹے خواب بیان کرنے والے کے سامنے قیامت کے دن جوڈالے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ ان میں لگاؤ۔ (أعاذنا الله منه) . خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی سعادت ایسی صورت میں بابرکت ہوسکتی ہے جبکہ خواب میں دیکھا ہوا حلیہ کتب حدیث میں موجود آپ کے حلیہ مُبارک کے مطابق ہو۔ آپ کے حلیہ مبارکہ کے متعلق مستند کتاب۔ "الرسول كأنك تراه" بہت مفید ہے،جس کااردو ترجمہ راقم کے قلم سے”آئینہ جمال نبوت“ کے نام سے دارالسلام نے شائع کیا ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث کے بیان کرنے میں ایک خاص ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے: پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے اور یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے۔ دوسری حدیث حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حدیث کونقل کرنے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے۔ تیسری حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ اس میں احتیاط کی تشریح کی گئی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کثرت سے بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے، بالکل بیان نہ کرنا ان کا مقصد نہ تھا۔ آخری حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے، اس میں اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند سے۔ (فتح الباري: 268/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 110
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3539
3539. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ابو لقاسم ﷺ نے فرمایا: ”میرا نام تو رکھ لیا کرو لیکن میری کنیت اختیار نہ کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3539]
حدیث حاشیہ: 1۔ کنیت،کنایہ سے ماخوذ ہے۔ اس سے مراد وہ لفظ ہے جو انسان کی شخصیت پر صراحت کے ساتھ دلالت نہ کرے،اس سے اشارہ ہوسکے۔ عربی زبان میں کنیت وہ ہے جس سے پہلے اب یا ام ہو۔ عربوں کے ہاں کنیت رکھنامشہور تھا۔ بعض لوگ کنیت سے مشہور ہوتے اور ان کا نام غیر معروف ہوتا،جیسے: ابوطالب اور ابولہب وغیرہ۔ اور بعض پر ان کے نام کا غلبہ ہوتا،کنیت غیر معروف ہوتی مثلاً: عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی کنیت ابوحفص غیرمعروف ہے۔ بہرحال کنیت،نام اور لقب سب علم ہیں جن سے انسان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ اس کی دووجوہات بیان کی جاتی ہیں: الف۔ آپ کے فرزند ارجمند کا نام قاسم تھا، اس لیے آپ اس کنیت سے مشہور ہوئے۔ ب۔ آپ لوگوں میں اللہ کامال تقسیم کرتے تھے،چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اللہ عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ “(المستدرك علی الصحیحین: 660/2، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) اس بنا پر آپ کو ابوالقاسم کہا جاتاتھا۔ 3۔ احادیث میں اس کی ممانعت آپ کی زندگی کے ساتھ مخصوص تھی۔ اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الادب میں بیان ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3539
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6197
6197. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت اختیار نہ کرو۔ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ اور جس نے مجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6197]
حدیث حاشیہ: (1) کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ کسی بچے کا نام محمد نہیں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے بطور دلیل یہ روایت پیش کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہو پھر انہیں گالیاں دیتے ہو۔ '' (مسند البزار: 318/2، رقم: 6895) اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں ایک سرکاری حکم جاری کیا کہ کسی نبی کے نام پر اپنے بچوں کے نام نہ رکھو، پھر انہوں نے اس بنا پر چند بچوں کے نام تبدیل کیے، لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ پیش کردہ روایت صحیح نہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس موقف سے رجوع ثابت ہے۔ جب انہیں پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ابو طلحہ کے ایک بیٹے کا نام محمد رکھا تھا۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 242/19، رقم: 544، وفتح الباري: 702/10)(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ روایات سے یہی ثابت کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر بچوں کے نام رکھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام پر بچوں کے نام رکھنے کی تو خود اجازت دی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6197