1157- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اضافی پانی سے کسی کو نہ روکا جائے ورنہ اس کے نتیجے میں قدرتی گھاس کی پیداوار کم ہوجائے گی“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2353، 2354، 6962، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1566، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4954، 4956، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5742، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3473، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1272، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2478، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11177، 11961، 11962، 11985، 11986، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7442، 7812، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6257، 6285، والطبراني فى «الصغير» برقم: 252»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1157
فائدہ: اس حدیث میں زائد پانی کو روکنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، جب کوئی زائد پانی مانگے تو اس کو دے دیا جائے تاکہ اس سے گھاس وغیر ہ اگے اور جانوروں کے کام آئے، جب کوئی زائد پانی کو روکے گا اور پانی نہیں دے گا تو گویا وہ گھاس کو اگنے سے روک رہا ہے۔ SR نوٹ: ER زائد پانی سے مراد وہ پانی ہے جس کے حصول میں کوئی مشقت نہ ہو، اور بغیر پیسوں کے حاصل ہو، موجودہ دور میں موٹر پمپ، ٹربینیں اور انجن کا پانی بڑی مشکل سے حاصل ہوتا ہے، اور ان کا بہت زیادہ بل آتا ہے، اس طرح کے پانی کا مالک اگر کسی کوفری پانی نہ دے تو اس کی مرضی، ایسے شخص پر یہ حدیث فٹ نہیں ہوتی۔ ہاں ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا بہت بڑاعمل ہے، اگر کوئی زمیندار تنگدست ہے، ذاتی موٹر نہیں لگوا سکتا اور نہ ہی بجلی کا بل دے سکتا ہے، تو اس کے ساتھ موٹروں کے مالک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے، اور اسے پانی اپنی طاقت کے مطابق فری دینا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1156
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 605
´فالتو پانی روکنے کی ممانعت` «. . . 355- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فالتو پانی نہ روکا جائے تاکہ اس طرح گھاس بچی رہے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 605]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2353، و مسلم 1566/36، من حديث مالك به] تفقه: ➊ اسلام پوری انسانیت کے لئے خیرخواہی کا دین ہے۔ ➋ اگر کسی آدمی کی زمین میں کسی ذریعے سے پانی آرہا ہے تو وہ اپنی ضرورت سے زائد پانی چھوڑ دے تاکہ اس کے ہمسائے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ➌ پڑوسیوں اور دوسرے مسلمانوں کو تکلیف دینا جائز نہیں ہے۔ ➍ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے کہ پانی بیچنا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 5/32 تحت ح2253] ➎ اس حدیث میں ممانعت سے مراد تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے جیسا کہ جمہور کی تحقیق ہے لیکن بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں۔ ➏ سدِّ ذرائع کے طور پر ایسے کام سے منع کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہو۔ ➐ اس حدیث کے عموم سے ظاہر ہے کہ روز مرہ کی تمام اشیاء جن سے مسلمانوں کی ضرورتیں وابستہ ہیں، روکنا اور ذخیرہ اندوزی کرنا غلط ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 355
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3473
´چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاضل پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے ذریعہ سے گھاس سے روک دیا جائے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3473]
فوائد ومسائل: توضیح۔ صحرائوں عام چراگاہوں اور راستوں پر عام کنویں چشمے یا تالاب ہوتے تھے۔ چرواہے وہاں آکر جانوروں کو پانی پلاتے۔ آرام کرتے۔ اور اپنے جانوروں کو چراتے تھے۔ پہلے آنے والا بعض اوقات بعد میں آنے والوں کو بقیہ پانی سے منع کر دیتا تھا۔ اور غرض یہ ہوئی تھی کہ جب پانی نہ ملےگا۔ تو وہ لوگ بھی ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔ اور اس طرح ارد گرد کی چراگاہ کی گھاس اس کے اپنے جانوروں کےلئے محفوظ رہے گی۔ ایسا کرنا ناجائز ہے۔ البتہ اگر کنواں ٹیوب ویل یا تالاب وغیرہ ذاتی ہو۔ اور اس پر اس نے خرچ کیا ہو۔ تو دوسروں کو روک سکتا ہے۔ لیکن اسلامی اخلاق وآداب کا خیال رکھنا پھر بھی ضروری ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3473
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1272
´ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیا جائے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1272]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ سوچ کردوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکاجائے کہ جب جانوروں کوپانی پلانے کو لوگ نہ پائیں گے تو جانورادھر نہ لائیں گے، اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لیے بچی رہے گی، یہ کھلی ہوئی خود غرضی ہے جو اسلام کو پسند نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1272
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4007
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضرورت سے زائد پانی نہ روکو، جس کا نتیجہ یہ نکلے کہ تم اس طرح گھاس کو روک سکو، (وہ تمہارے لیے محفوظ ہو جائے)۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4007]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ایک انسان کا ایسے علاقہ میں کنواں ہے، جہاں مشترکہ گھاس موجود ہے، جس سے سب لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور اس گھاس کے قریب کوئی اور پانی نہیں ہے، جس سے مویشیوں کو پلایا جا سکے، اور مویشیوں کو پانی پلوائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، ایسی صورت میں اگر کنویں میں، مالک کی ضرورت سے زائد پانی ہے تو اس پانی سے مویشیوں کو روکنا، درحقیقت اس مشترکہ گھاس سے روکنا ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔ امام مالک، امام ابو حنیفہ، اور امام شافعی کا یہی موقف ہے، لیکن کاشت کاری اور زراعت کے لیے فالتو پانی دینا پسندیدہ ہے، لازم نہیں ہے، لیکن امام مالک کے نزدیک دونوں کا حکم یکساں ہے، حدیث کی رو سےشوافع اور احناف کا موقف راجح ہے، کیونکہ جانوروں اور زمین کا حکم یکساں نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4007
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4008
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضرورت سے فالتو پانی نہ بیچا جائے کہ اس سے گھاس کو فروخت کیا جا سکے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4008]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ فالتو پانی، پینے اور مویشیوں کو پلانے سے روکنا جس طرح منع ہے، اس طرح اس کو بیچنابھی منع ہے، اس لیے ان لوگوں کا موقف درست نہیں ہے، جو کہتے ہیں کہ روکنا منع ہے، بیچنا منع نہیں ہے، کیونکہ پانی پینے سے روکنا یا اس کو بیچنا ہی گھاس بیچنے کا واسطہ اور ذریعہ ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت اور کاشتکاری کے لیے پانی بیچنا منع نہیں ہے، کیونکہ اس سے گھاس بیچنا لازم نہیں ٹھہرتا، اور پانی کی تین اقسام ہیں۔ (1) نہروں اور دریاؤں کا پانی، جس پر کسی کی ملکیت نہیں ہے، یہ سب کے لیے عام ہے، اس کو بیچنا درست نہیں ہے، ہاں زمیندار یا کاشتکار، جو نہروں کا پانی حکومت سے اپنے لیے حاصل کرتے ہیں، وہ ان کی ملکیت میں آ جاتا ہے، اس کا فروخت کرنا جائز ہو گا۔ (2) وہ پانی جو انسان اپنی ملکیتی زمین میں، جمع کرتا ہے، وہ اس کا حقدار ہے، لیکن انسانوں یا مویشیوں کو اگر فالتو ہو تو پینے سے روک نہیں سکتا، اور نہ ہی بیچ سکتا ہے، ہاں کھیتی یا باغ کو پلانے سے روک سکتا ہے، اور بیچ بھی سکتا ہے۔ (3) وہ پانی جو انسان گھریلو استعمال کے لیے گھر میں برتنوں یا ٹینکی اور حوض میں جمع کرتا ہے، وہ اس کا مالک ہے، اور دوسروں کو اس سے روک سکتا ہے، ہاں ضرورت سے زائد ہو تو لاچار اور مجبور انسان جس کو پانی کہیں سے دستیاب نہ ہو رہا ہو، اس کو پلانے کا پابند ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4008
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2353
2353. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فالتو پانی نہ روکا جائے کہ اس طرح زائد گھاس بچانا مقصود ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2353]
حدیث حاشیہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا کنواں ایک مقام پر ہو، اس کے ارد گرد گھاس ہو جس میں عام طور پر سب کو چرانے کا حق ہو۔ مگر کنویں والا کسی کے جانوروں کو پانی نہ پینے دے اس غرض سے کہ جب پانی پینے کو نہ ملے تو لوگ اپنے جانور بھی وہاں چرانے کو نہ لائیں گے اور گھاس محفوظ رہے گی۔ جمہور کے نزدیک یہ حدیث محمول ہے اس کنویں پر جو ملکی زمین میں ہو یا ویران زمین میں بشرطیکہ ملکیت کی نیت سے کھودا گیا ہو اور جو کنواں خلق اللہ کے آرام کے لیے ویران زمین میں کھودا جائے اس کا پانی ملک نہیں ہوتا، لیکن کھودنے والا جب تک وہاں سے کوچ نہ کرے اس پانی کا زیادہ حق دا رہوتا ہے۔ اور ضرورت سے یہ مراد ہے کہ اپنے اور بال بچوں اور زراعت اور مویشی کے لیے جو پانی درکار ہو۔ اس کے بعدجو فاضل ہو اس کا روکنا جائز نہیں۔ خطابی نے کہا کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے مگر اس کی دلیل کیا ہے پس ظاہر یہی ہے کہ نہی تحریمی ہے اور پانی کو نہ روکنا واجب ہے۔ اب اختلاف ہے کہ فاضل پانی کی قیمت لینا اس کو روکنا ہے یا نہیں۔ ترجیح اسی کوحاصل ہے کہ فاضل پانی کی قیمت نہ لی جائے، کیوں کہ یہ بھی ایک طرح اس کا روکنا ہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2353
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2354
2354. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ضرورت سے زائد پانی سے کسی کو اس غرض سے نہ روکو کہ (اس طرح) تم ضرورت سے زائد گھاس کو بچاؤ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2354]
حدیث حاشیہ: (1) پانی کو اس وقت روکنا ممنوع ہے جب وہ پانی مالک کی ضروریات سے زائد ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب پانی ضروریات سے زائد نہ ہو تو اس کا روکنا جائز ہے۔ زائد پانی وہ ہے جو مالک، اس کے اہل و عیال، کاشتکاری اور مویشیوں کی ضروریات سے فالتو ہو، نیز اس سے مراد وہ پانی ہے جو برتنوں میں محفوظ نہ ہو کیونکہ برتن میں محفوظ زائد پانی کا دینا ضروری نہیں الا یہ کہ پانی لینے والا انتہائی مجبور ہو۔ (2) ایک شخص جب کنواں بناتا تو اس کے اطراف میں ایک رقبہ مخصوص ہو جاتا جہاں جانور آتے اور پانی پیتے، کنویں کے پانی سے سیراب ہو کر آس پاس گھاس بھی اُگ آتی۔ اب کنویں والے گھاس کی حفاظت کا بہانہ بنا کر فالتو پانی روک لیتے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا دیا۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ پانی کا مالک خود اور اپنی فصل کے سیراب ہونے تک زیادہ حق دار ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پانی میں حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے گا، جمہور اسی بات کے قائل ہیں کہ پانی ایسی مشترک چیز نہیں جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ (فتح الباري: 40/5) الغرض زائد از ضرورت پانی کسی طرح بھی ہو اسے روکنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2354
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6962
6962. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ضرورت سے زائد پانی سے منع نہ کیا جائے تاکہ اس بہانے فالتو گھاس بھی محفوظ رہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6962]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کا عنوان سے اس طرح تعلق ہے کہ جس گھاس میں سب لوگ شریک ہوں وہ ہر ایک کے لیے جائز اور مباح ہوتو اسے لوگوں سے بچانے کے لیے یہ حیلہ کہا جائے کہ لوگوں کے لیے پانی کے استعمال پر پابندی لگا دے اس طرح گھاس بھی محفوظ ہو جائے گی کیونکہ اس طرح لوگ اپنے چوپائیوں کو پانی پلانے کے لیے کنویں کے پاس نہیں لائیں گے اور نہ گھاس ہی اپنے حیوانات کو چرائیں گے۔ 2۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کنویں کا مالک ہے،اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں، کنویں کے ارد گرد گھاس کی چراگاہ ہے جوہر ایک کے لیے مباح ہے، کنویں کا مالک چاہتا ہے کہ کوئی شخص گھاس نہ چرائے تو وہ اپنے کنویں کے زائد پانی پر پابندی لگا دے تاکہ لوگوں کے جانور پانی پی کر گھاس نہ چریں، اس بہانے سے وہ کنویں کا پانی فروخت کرے اور لوگ اسے خریدنے پر مجبور ہوں گے۔ اگر پانی اس کی ضروریات سے زائد نہ ہو تو لوگوں کو پانی سے روکا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 419/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6962