1084- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: کسی بھی شاعر نے جو کلام کہا: ہے اس میں سب سے سچا یہ شعر ہے۔ ”خبردار! اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز فانی ہے اور ہر نعمت نے آخر کارزائل ہوجانا ہے۔“(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:)”ابن ابوصلت مسلمان ہونے کے قریب تھا“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3841، 6147، 6489، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2256، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5783، 5784، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2849، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3757، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21025، 21163، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7500، 9206، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6015»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1084
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اچھا شعر پڑھنا درست ہے، شرک و بدعت پر مبنی شعر پڑھنا گناہ ہے، ابن ابی صلت کا نام امیہ تھا، اور ابوصلت کا نام ربیعہ بن عوف بن عقدہ بن غیرہ بن عوف بن ثقیف الثقفی تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے دین کو طلب کیا تھا، اور کتابوں کو دیکھا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عیسائی ہو گیا تھا، اور یہ بہت بڑا شاعر تھا، اس کے شعروں میں توحید اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھنے کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے۔ [فتح الباري: 153/7]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1082
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6489
´جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی ہے` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَصْدَقُ بَيْتٍ قَالَهُ الشَّاعِرُ: أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سب سے سچا شعر جسے شاعر نے کہا ہے یہ ہے ”ہاں اللہ کے سوا تمام چیزیں بےبنیاد ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6489]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6489 کا باب: «بَابُ: «الْجَنَّةُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ»:» باب اور حدیث میں مناسبت: تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کا انتخاب فرمایا، پہلی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس سے باب کا تعلق ظاہر ہے، مگر دوسری حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا ذکر ہم نے چند سطروں پہلے کیا ہے اس کا تعلق باب کے ساتھ مشکل ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: «مناسبة هذا الحديث الثاني للترجمة خفية، وكأنه الترجمة لما تضمنت ما فى الحديث الأول من التحريض على الطاعة و لو قلت و الزجر عن المعصية و لو قلت فيفهم أن من خالف ذالك إنما يخالفه لرغبة فى أمر من أمور الدنيا، و كل ما فى الدنيا باطل كما صرح به الحديث الثاني، فلا ينبغي للعاقل أن يؤثر الفاني على الباقي.»(3) ”یعنی حدیث ثانی کے ساتھ باب کی مناسبت بہت خفی ہے، گویا ترجمہ میں پہلی حدیث میں مذکور اطاعت کی ترغیب کو متضمن ہے چاہے قلیل ہو، اسی طرح زجر عن معصیت چاہے قلیل ہوں تو اسے سمجھا جائے گا کہ جس نے اس کی مخالفت کی اس نے امور دنیا میں سے کسی امر میں جنت کے سبب اس کی مخالفت کی اور دنیا میں جو کچھ ہے باطل ہے، جیسا کہ دوسری حدیث نے تصریح کی تو عاقل کو چاہیے کہ فانی چیز کو باقی رہنے والی چیز پر ترجیح ہرگز نہ دے۔“ یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے ہی دقیق الفاظوں سے باب کا معنی حدیث سے اخذ فرمایا ہے، آپ کا طریقہ استنباط اس طرح سے ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی اطاعت میں ہو گا اس کا عمل قائم رہے گا اور وہ برباد اور ضائع نہ ہو گا، کیوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ ہر کسی کو زوال اور اختتام ہے، لہذا جو نیک کام اللہ کے لیے ہو گا اسے زوال نہ ہو گا اور جو کام نا فرمانی کی غرض سے ہو گا، یقینا اس کام کو زوال ہو گا اور وہ کام صرف دنیا میں ہی نظر آئے گا اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «و المراد بقوله ”ألا كل بشيئي“ إلى آخره الخصوص، لأن كل ما قرب من الله تعالي فليس بباطل، و إنما أراد أن كل شيئي ما خلا الله باطل من أمر الدنيا الذى لا يئول إلى طاعة الله، و لا يقرب منه تعالي فهي باطل.»(1) ”یعنی ہر وہ شیئ جو اللہ تعالی کے قریب ہو گی وہ باطل نہ ہو گی اور ہر وہ شیئی جو اللہ تعالی کی نافرمانی پر قائم ہو گی تو پس وہ اللہ تعالی کے قریب نہ ہو گی اور وہ باطل ہو گی۔“ لہذا اب باب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہوئی کہ نیک اعمال کا ٹھکانہ جنت ہے اور وہ لازوال ہے، اور برے اعمال کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جہنم والے اعمال برباد کر دیے جائیں گے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3757
´شعر کہنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید (شاعر) کا یہ شعر ہے «ألا كل شيء ما خلا الله باطل» سن لو! اللہ کے علاوہ ساری چیزیں فانی ہیں اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جائے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3757]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت لبید ؓ عرب کے ایک شاعر تھے جو مسلمان ہو گئے تھے۔ حضرت معاویہ ؓ کے دور خلافت میں فوت ہوئے۔
(2) جو کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے وہی نیکی ہے۔
(3) میہ بن ابوصلت غیر مسلم شاعر تھا لیکن اس کے شعر اچھے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3757
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5888
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عربوں نے جو بول بولے ہیں، ان میں بہترین کلام،لبید کا یہ شعر ہے۔ ”خبردار، اللہ کےسوا ہر چیز، فانی اور زوال پذیر ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5888]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: لبید بن ربیعہ عامر ایک جاہلی شاعر اور شہسوار ہے، جس نے اسلام کا دور پایا اور بنو کلاب کے وفد میں شریک ہو کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا، شعروشاعری کو چھوڑ کر تلاوت قرآن میں مشغول ہو گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5888
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5890
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے سچا بول شعر جو کسی شاعر نے کہا ہے، ”یہ ہےخبردار! اللہ کے سوا ہر چیز بے حقیقت ہے۔“ اور قریب تھا کہ ابن ابی صلت اسلام لے آتا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5890]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ کا وجود، ذاتی اور مستقل اور ازلی ہے اورابد تک رہے گا، نہ وہ معدوم تھا، نہ معدوم ہوگا، کائنات میں ہر چیز کا وجود، پہلے نہ تھا، بعد میں اللہ کی تخلیق اور ایجاد سے اس کو وجود ملا، نہ وہ ازلی ہے اور نہ ذاتی ہے، بلکہ اس کا عطاکر دہ ہے اور اس کے ارادہ اور مشیت کے ساتھ موجود اور برقرار ہے، جب وہ چاہے گا، وہ ختم ہو جائے گا، وہ مستقل نہیں ہے بلکہ محتاج ہے اور ذاتی حیثیت سے وہ بے حقیقت ہے، اس لیے اس کو باطل کا نام دیا گیا، لیکن اس وحدت الوجود کا نظریہ کشید کرنا، ایک فضول اور بے کار کاوش ہے، اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر اس سے وحدت الوجود کا اثبات ہوتا تو یہ نظریہ صحابہ و تابعین کے دور میں پیدا ہو چکا ہوتا، یہ تو ایک فلسفہ یا نظریہ ہے، جو الحاد اور زندقہ کا راستہ کھولتا ہے اگر اسلامی نظریہ ہوتا تو بے دینی کا راستہ ہموار نہ کرتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5890
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3841
3841. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سب سے سچی بات جو کوئی شاعر کہہ سکتا تھا وہ لبید شاعر نے کہی: ”آگاہ رہو! اللہ کے سوا ہر چیز کو زوال ہے۔“ اور امیہ بن ابی صلت (شاعر) مسلمان ہونے کے قریب تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3841]
حدیث حاشیہ: باطل سے یہاں مراد فنا ہونا ہے یا با لفعل معدوم جیسے صوفیا کہتے ہیں کہ خارج میں سوائے خدا کے فی الحقیقت کچھ موجود نہیں ہے اور یہ جو وجود نظر آتا ہے یہ وجود موہوم ہے جو ایک نہ ایک دن فانی ہے۔ صحیح مسلم میں شرید سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے امیہ بن ابی الصلتت کے شعر سناؤ۔ میں نے آپ ﷺ کو سو بیتوں کے قریب سنائے۔ آپ نے فرمایا یہ تو اپنے شعروں میں مسلمان ہونے کے قریب تھا۔ امیہ جاہلیت کے زمانہ میں عبادت کیا کرتا تھا، آخرت کا قائل تھا۔ بعض نے کہا کہ نصرانی ہوگیا تھا اس کے شعر وں میں اکثر توحید کے مضامین ہیں لبید کا پورا شعر یہ ہے۔ ألا کل شیئ ماخلا اللہ باطل وکل نعیم لا محالة زائل جس کا اردو ترجمہ شعر میں مولانا وحید الزماں مرحوم نے یوں کیاہے۔ جو خدا کے ماسوا ہے وہ فنا ہوجائے گا ایک دن جو دیش ہے مٹ جائے گا لبید کا ذکر کرمانی میں ہے: الشاعر الصحابي من فحول شعر اء الجاهلیة فأسلم ولم یقل شعرا بعد۔ یعنی لبید جاہلیت کا مانا ہوا شا عر تھا جو بعد میں مسلمان ہوگیا پھر اس نے شعر گوئی کو بالکل چھوڑ دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3841
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6489
6489. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بہت سچا مصرعہ جو کسی شاعر نے کہا، وہ یہ ہے: ”اللہ کے سوا ہر شے فانی اور باطل ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6489]
حدیث حاشیہ: اس سے اگلا مصرعہ یہ ہے وکل نعیم لا محالة زائل ترجمہ منظوم مولا نا وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کیا ہے۔ فانی ہے جو کچھ ہے غیراللہ کوئی مزہ رہتا نہیں ہرگز سدا
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6489
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6147
6147. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شاعر نے جو سچی بات کہی ہے وہ لبید کا یہ قول ہے: ”آگاہ رہو! اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جاتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6147]
حدیث حاشیہ: لبید عرب کا مشہور شاعر تھا۔ اس کے کلام میں توحید کی خوبیاں اور بت پرستی کی مذمت بھری ہوئی ہے معلوم ہوا کہ اچھا شعر خواہ کسی غیر مسلم ہی کا کیوں نہ ہو اس کی تحسین جائز ہے۔ مرد باید کہ گیرد اندر گوش وربنشت است پند بر دیوار۔ اوراس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے۔ وکل نعیم لا محالة زائل۔ یعنی ہر ایک نعمت ضرور ضرور ختم ہونے والی ہے مگر جنت کی نعمتیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6147
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3841
3841. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سب سے سچی بات جو کوئی شاعر کہہ سکتا تھا وہ لبید شاعر نے کہی: ”آگاہ رہو! اللہ کے سوا ہر چیز کو زوال ہے۔“ اور امیہ بن ابی صلت (شاعر) مسلمان ہونے کے قریب تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3841]
حدیث حاشیہ: 1۔ لبید بن ربیعہ عامری بہت نامور شاعر ہیں جنھوں نے دور جاہلیت میں بہت عمدہ شعر کہے۔ انھوں نے اسلام لانے کے بعد کوئی شعر نہیں کہا اور یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شعر کا بدل قرآن دیا ہے۔ اب شعر کہنے کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت عثمان ؓ کے دور حکومت میں فوت ہوئے۔ (فتح الباري: 193/7) 2۔ حضرت شرید بن سوید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہواتھا کہ آپ نے مجھے فرمایا: ”تجھے امیہ بن ابی صلت کا کوئی شعر یاد ہے؟“ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا: ”سناؤ“میں نے ایک شعر پڑھا۔ میں نے آپ کے کہنے پر اس کے سو شعر پڑھے تو آپ نے فرمایا: ”وہ اپنے اشعار میں مسلمان ہونے کی قریب تھا (لیکن وہ مسلمان نہیں ہوا) ۔ “(صحیح مسلم، الشعر، حدیث: 5885۔ (2255) امیہ زمانہ جاہلیت میں عبادت کرتا تھا اور آخرت کا بھی قائل تھا۔ اس کے اشعار میں اکثر توحید کا ذکر ملتا ہے۔ (عمدة القاري: 551/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3841
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6147
6147. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شاعر نے جو سچی بات کہی ہے وہ لبید کا یہ قول ہے: ”آگاہ رہو! اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جاتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6147]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر نہیں تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ہم نے اس نبی کو شعر کہنا نہیں سکھائے اور نہ یہ اس کے شایان شان تھا۔ “(یٰسں36: 69) کیونکہ شاعر عموماً زمین و آسمان کے قلابے ملاتے پھرتے ہیں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اشعار پسند کرتے تھے اور بعض اوقات انہیں پڑھا بھی کرتے تھے جیسا کہ آپ نے لبید کے اشعار کی تعریف فرمائی۔ (2) یاد رہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے سامنے جب لبید نے اس شعر کا دوسرا مصرعہ ”ہر نعمت ضروری طور پر ختم ہونے والی ہے“ پڑھا تو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ جھوٹ ہے کیونکہ جنت کی نعمتیں ختم نہیں ہوں گی۔ “(فتح الباري: 7/193)(3) لبید کا پورا نام لبید بن ربیعہ بن عامر ہے یہ مسلمان ہو گئے تھے اور اسلام لانے کے بعد انہوں نے شعر کہنے موقوف کر دیے تھے۔ واللہ أعلم (4) امیہ بن ابو صلت کے اشعار بھی توحید، آخرت اور معاشرتی اصلاح پر مبنی ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے امیہ بن ابو صلت کے سو شعر سنے تھے اور ان کی تحسین فرمائی تھی۔ (صحیح مسلم، الشعر، حدیث: 5885(2255)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6147
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6489
6489. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بہت سچا مصرعہ جو کسی شاعر نے کہا، وہ یہ ہے: ”اللہ کے سوا ہر شے فانی اور باطل ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6489]
حدیث حاشیہ: (1) جب اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فانی ہے جس میں اللہ کی اطاعت نہ ہو تو ایسی اشیاء میں مشغول ہونا گویا جنت سے دور ہونا ہے، حالانکہ جنت تو اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ”جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا اور جو اللہ کے ہاں نعمتیں ہیں وہ باقی رہنے والی ہیں۔ “(النحل: 96)(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کو بقا اور دوام حاصل ہے تو عقل مند کے لائق نہیں کہ وہ فانی چیز کو باقی رہنے والی پر ترجیح دے۔ (فتح الباري: 391/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6489