1074- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”لوگ اس (حکومت کے) معاملے میں قریش کے تابع ہوں گے، مسلمان لوگ، مسلمان قریش کے تابع ہوں گے اور کافر لوگ، کافر قریش کے تابع ہوں گے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3493، 3495، 6058، 7179، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1818، 2526، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 92، 5754، 5755، 5757، 6264، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4872، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2025، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5378، 16627، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7426، 7459، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6070، 6264»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2025
´دو رخے شخص کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ کی نظر میں دو رخے شخص سے بدتر کوئی نہیں ہو گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2025]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: دورخے شخص سے مراد ایسا آدمی ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے تو اسے یہ یقین دلائے کہ تمہارا خیر خواہ اور ساتھی ہوں اوردوسرے کا مخالف ہوں، لیکن جب دوسرے گروہ کے پاس جائے تو اسے بھی اسی طرح کا تاثر دے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2025
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1075
1075- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”تم لوگوں کو معدن کی طرح پاؤ گے، جو لوگ زمانہ جاہلیت میں بہترتھے وہ اسلام میں بھی بہتر شمار ہوں گے، جب کہ انہیں دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہوجائے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1075]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دین کی سمجھ انسان کو ممتاز کرتی ہے، دین میں نقابت قرآن و حد یث کی سمجھ ہے نہ کہ فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ حنبلی اور فقہ مالکی۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو برتری ملی اس کی سب سے بڑی وجہ قرآن و حدیث میں فقاہت تھی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1075
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1166
1166- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”تم لوگوں میں سب سے زیادہ برا دوغلے شخص کو پاؤ گے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1166]
فائدہ: اس حدیث میں دوزخ والوں کی برائی بیان کی جا رہی ہے کہ دنیا میں تو لوگ بھی اچھے کو برا اور برے کو اچھا کہہ دیتے ہیں لیکن یہ برے نہیں ہے، حقیقت میں برے وہ ہیں جن کو اللہ نے نعمتوں والی جنت کی بجائے صعوبتوں والی جہنم کا وارث بنا دیا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1164
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6058
6058. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم قیامت کے دن لوگوں میں اللہ کے ہاں بدتر اس شخص کو پاؤ گے جو دو رخا ہوگا۔ جو ان لوگوں کے پاس ایک منہ سے آتا ہے اور ان کے پاس دوسرے منہ سے آتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6058]
حدیث حاشیہ: ہر جگہ لگی لپٹی بات کہتا ہے۔ دو رخا آدمی وہ ہے کہ ہر فریق سے ملا رہے۔ جس کی صحبت میں جائے ان کی سی کہے۔ یعنی رکابی مذہب والا (با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام) قال القرطبي إنما کان ذوالوجھین شر الناس لأن حاله حال المنافق (فتح) یعنی منہ دیکھی بات کرنے والا بد ترین آدمی ہے اس لئے کہ اس کا منافق جیسا حال ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6058
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7179
7179. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا،آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ لوگوں میں بد ترین وہ شخص ہے جو دورخا ہو، ان کے ساتھ ایک بات کرتا ہے تو دوسروں کے ساتھ اور بات کرتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7179]
حدیث حاشیہ: منہ دیکھی بات کرنا اچھے لوگوں کا شیوہ نہیں ایسے لوگ سب کی نظروں میں غیرمعتبر ہو جاتے ہیں اور ان کا کوئی مقام نہیں رہتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7179
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6058
6058. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم قیامت کے دن لوگوں میں اللہ کے ہاں بدتر اس شخص کو پاؤ گے جو دو رخا ہوگا۔ جو ان لوگوں کے پاس ایک منہ سے آتا ہے اور ان کے پاس دوسرے منہ سے آتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6058]
حدیث حاشیہ: (1) دو رخا وہ آدمی ہے جو ہر فریق کی ہاں میں ہاں ملانے کا عادی ہو جیسا کہ کہا جاتا ہے: با مسلمان الله الله بابر همن رام رام۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے دنیا میں دوچہرے ہوں گے قیامت کے دن اس کی دو زبانیں آگ کی ہوں گی۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4873)(2) اس قسم کے لوگ اپنی سمجھ میں بڑے عقلمند بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ابن الوقت لوگوں کو قرآنی اصطلاح میں منافق کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ان کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ حدیث کے مطابق قرآن میں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”یہ کفر اور ایمان کے درمیان لٹک رہے ہیں، نہ ادھر کے ہیں اور نہ ادھر کے۔ “(النساء4: 143) بہرحال یہ لوگ انتہائی بزدل اور اخلاقی پستی کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی اصلاح کی نیت سے فریقین کے پاس آتا جاتا ہے تو وہ قابل مذمت نہیں بلکہ وہ نیک لوگوں میں سے ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6058
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7179
7179. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا،آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ لوگوں میں بد ترین وہ شخص ہے جو دورخا ہو، ان کے ساتھ ایک بات کرتا ہے تو دوسروں کے ساتھ اور بات کرتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7179]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں منافقانہ رویہ بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں سے کہتے ہیں: ہم مومن ہیں اور ان سے ایمانی باتیں کرتے ہیں اور جب کافروں کے پاس آتے ہیں تو ان کی ہم نوائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو مسلمانوں سے مذاق کرتے ہیں۔ حدیث میں ایسے لوگوں کو بدترین کہا گیا ہے۔ ایسا کرنا اچھے لوگوں کا شیوہ اور طور طریقہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ سب کی نظروں سے گرجاتے ہیں اور معاشرے میں ان کا کوئی مقام واحترام نہیں رہتا۔ بہرحال اسلام نےدورخے پن کی بہت مذمت کی ہے، ایک مسلمان کو ہرحال میں اس سے بچنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7179