الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند احمد
مسند النساء
1171. تتمة مسند عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
حدیث نمبر: 25089
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: جَاءَتْ يَهُودِيَّةٌ، فَاسْتَطْعَمَتْ عَلَى بَابِي، فَقَالَتْ: أَطْعِمُونِي، أَعَاذَكُمْ اللَّهُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَلَمْ أَزَلْ أَحْبِسُهَا حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ هَذِهِ الْيَهُودِيَّةُ؟ قَالَ:" وَمَا تَقُولُ؟"، قُلْتُ: تَقُولُ: أَعَاذَكُمْ اللَّهُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ! قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا يَسْتَعِيذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا فِتْنَةُ الدَّجَّالِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ إِلَّا قَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ، تَحْذِيرًا لَمْ يُحَذِّرْهُ نَبِيٌّ أُمَّتَهُ، إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ" . " فَأَمَّا فِتْنَةُ الْقَبْرِ، فَبِي تُفْتَنُونَ، وَعَنِّي تُسْأَلُونَ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: فِي الْإِسْلَامِ؟ فَيُقَالُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ إِلَى الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا، وَيُقَالُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ. وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ فِيكُمْ؟، فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ، يَقُولُونَ قَوْلًا، فَقُلْتُ كَمَا قَالُوا، فَتُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا، كُنْتَ عَلَى الشَّكِّ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُعَذَّبُ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک یہودیہ عوت میرے دروازے پر آکر کھانا مانگتے ہوئے کہنے لگی کہ مجھے کھانا کھلاؤ اللہ تمہیں دجال اور عذاب قبر کی آزمائش سے محفوط رکھے، میں نے اسے اپنے پاس روکے رکھا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگئے، میں نے ان سے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ یہودیہ کیا کہہ رہی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کہہ رہی ہے؟ میں نے کہا یہ کہہ رہی ہے کہ اللہ تمہیں دجال اور عذاب قبر کی آزمائش سے محفوظ رکھے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور اپنے ہاتھ پھیلا کر اللہ سے دجال اور عذاب قبر کی آزمائش سے بچنے کی دعاء کرنے لگے، پھر فرمایا جہاں تک فتنہ دجال کا تعلق ہے تو کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا نہ ہو اور میں تمہیں اس کے متعلق اس طرح متنبہ کروں گا کہ کسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نہ کہا ہوگا، یاد رکھو! وہ کانا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہوسکتا، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان " کافر " لکھا ہوگا جسے ہر مومن پڑھ لے گا۔ باقی رہا فتنہ قبر تو میرے ذریعے تمہاری آزمائش کی جائے گی اور میرے متعلق تم سے پوچھا جائے گا، اگر مرنے والا نیک آدمی ہو تو فرشتے اسے اس کی قبر میں اس طرح بٹھاتے ہیں کہ اس پر کوئی خوف اور گھبراہٹ نہیں ہوتی، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے کس دین میں وقت گذارا؟ وہ کہتا ہے اسلام میں، پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون آدمی تھا جو درمیان میں تھا؟ وہ کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے اور ہم نے ان کی تصدیق کی، اس پر اسے جہنم کا ایک دروازہ کھول کر دکھایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اگر تم اپنے رب کے ساتھ کفر کرتے تو تمہارا ٹھکانہ یہاں ہوتا، لیکن چونکہ تم اس پر ایمان رکھتے ہو اس لئے تمہارا ٹھکانہ دوسرا ہے یہ کہہ کر اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، پھر وہ اٹھ کر جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو فرشتہ اسے سکون سے رہنے کی تلقین کرتا ہے اور اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ اور اگر وہ برا ہو تو فرشتہ جب اس سے پوچھتا ہے کہ تم اس آدمی کے متعلق کیا کہتے ہو؟ وہ جواب دیتا ہے کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں، البتہ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا تھا، فرشتہ اس سے کہتا ہے کہ تم نے کچھ جانا، نہ تلاوت کی اور نہ ہدایت پائی، پھر اسے جنت کا ایک دروازہ کھول کر دکھایا جاتا ہے اور فرشتہ اس سے کہتا ہے کہ اگر تم اپنے رب پر ایمان لائے ہوتے تو تمہارا ٹھکانہ یہاں ہوتا، لیکن چونکہ تم نے اس کے ساتھ کفر کیا، تم شک میں مبتلا تھے، اسی حال میں مرے اور اسی حال میں اٹھائے جاؤ گے (ان شاء اللہ) پھر اسے سزا دی جاتی ہے، اس لئے اللہ نے تمہارا ٹھکانہ یہاں سے بدل دیا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریب المرگ آدمی کے پاس فرشتے آتے ہیں اگر نیک آدمی ہو تو اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس طیبہ! " جو پاکیزہ جسم میں رہا " یہاں سے نکل، قابل تعریف ہو کر نکل اور روح و ریحان کی خوشخبری قبول کر اور اس رب سے ملاقات کر جو تجھ سے ناراض نہیں، اس کے سامنے یہ جملے باربار دہرائے جاتے ہیں حتیٰ کہ اس کی روح نکل جاتی ہے، اس کے بعد اسے آسمان پر لے جایا جاتا ہے، دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، آواز آتی ہے کون؟ جواب دیا جاتا ہے؟ " فلاں " آسمان والے کہتے ہیں اس پاکیزہ نفس کو جو پاکیزہ جسم میں رہا، خوش آمدید! قابل تعریف ہو کر داخل ہوجاؤ اور روح و ریحان اور ناراض نہ ہونے والے رب سے ملاتات کی خوشخبری قبول کرو، یہی جملے اس سے ہر آسمان میں کہے جاتے ہیں، یہاں تک کہ اسے اس آسمان پر لے جایا جاتا ہے جہاں پروردگار عالم خود موجود ہے۔ اور اگر وہ گناہگار آدمی ہو تو فرشتے کہتے ہیں کہ اے خبیث روح " جو خبیث جسم میں رہی " نکل، قابل مذمت ہو کر نکل کھولتے ہوئے پانی اور کانٹے دار کھانے کی خوشخبری قبول کر اور اس کے علاوہ دیگر انواع و اقسام کے عذاب کی خوشخبری بھی قبول کر، اس کے سامنے یہ جملے باربار دہرائے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کی روح نکل جاتی ہے، فرشتے اسے لے کر آسمانوں پر چڑھتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، پوچھا جاتا ہے کون؟ بتایا جاتا ہے کہ " فلاں " وہاں سے جواب آتا ہے کہ اس خبیث روح کو جو خبیث جسم میں رہی، کوئی خوش آمدید نہیں، اسی حال میں قابل مذمت واپس لوٹ جا، تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، چنانچہ وہ آسمان سے واپس آ کر قبر میں چلی جاتی ہے۔ پھر نیک آدمی کو قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے وہی تمام جملے کہے جاتے ہیں جو پہلے مرتبہ کہے گئے تھے اور گناہگار آدمی کو بھی اس کی قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے بھی وہی کچھ کہا جاتا ہے جو پہلے کہا جا چکا ہوتا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25089]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح