سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں میرے بھائی (دوسری روایت کے مطابق چچا) نے سخت جنگ لڑی، لیکن اسی دوران اس کی تلوار اچٹ کر خود اسی پر لگ گئی اور وہ اسی کی دھار سے شہید ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کر کے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ وہ اپنے ہی ہتھیار سے مارا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس ہوئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کی طرف سے مجھے رجزیہ اشعار پڑھنے کی اجازت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ سوچ سمجھ کر کہنا۔
میں نے شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ بخدا! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم کبھی ہدایت یافتہ نہ ہوتے، صدقہ و خیرات کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سچ کہا، میں نے آگے کہا کہ اے اللہ! ہم پر سکینہ نازل فرما اور دشمنوں سے آمنا سامنا ہو نے پر ہمیں ثابت قدمی عطاء فرما کہ مشرکین نے ہمارے خلاف سرکشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔
میں نے جب اپنے رجزیہ اشعار مکمل کئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ اشعار کس نے کہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میرے بھائی نے کہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! کچھ لوگ ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے گھبرا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار سے ہی مرا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ محنت کرتا ہوا مجاہد بن کر شہید ہوا ہے۔ ایک دوسری سند میں یوں بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ ان پر نماز جنازہ پڑھنے سے گھبرا رہے ہیں انہیں غلطی لگی ہے، وہ تو محنت کرتا ہوا مجاہد بن کر شہید ہوا ہے اور اسے دوہرا اجر ملے گا، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں سے اشاردہ فرمایا:۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16503]