ناشرہ کہتے ہیں کہ میں نے جابیہ میں سیدنا عمر کے دوران خطبہ لوگوں سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے مجھے مال کا صرف خزانچی اور تقسیم کنندہ بنایا ہے پھر فرمایا کہ بلکہ اللہ ہی اسے تقسیم کرنے والا ہے البتہ میں اس کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ سے کر وں گا پھر درجہ بدرجہ معززین کو دوں گا چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے سیدنا جو یریریہ صفیہ اور سیدنا میمونہ کے سواسب کے لئے دس دس ہزار درہم مقرر کئے، سیدنا عائشہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے درمیان انصاف سے کام لیتے تھے چنانچہ سیدنا عمر نے ان کا حصہ بھی برابر کر دیا۔ پھر فرمایا: میں صحابہ میں اپنے مہاجرین اولین ساتھیوں سے آغاز کر وں گا کیونکہ ہم لوگوں کو اپنے وطن سے ظلما نکالا گیا تھا پھر ان میں سے جو زیادہ معزز ہوں گے چنانچہ انہوں نے ان میں سے اصحاب بدر کے لئے پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کئے اور غزوہ بدر میں شریک ہو نے والے انصاری صحابہ کے لئے چار چار ہزار درہم مقرر کئے اور شرکاء احد کے لئے تین تین ہزار مقرر کئے اور فرمایا: جس نے ہجرت میں جلدی کی میں اسے عطا کرنے میں جلدی کر وں گا اور جس نے ہجرت میں سستی کی میں اسے عطا کرنے میں سستی کر وں گا اس لئے اگر کوئی شخص ملامت کرتا ہے تو صرف اپنی سواری کو ملامت کر ے اور میں تمہارے سامنے خالد بن ولید کے حوالے سے معذرت کرتا ہوں دراصل میں نے انہیں یہ حکم دیا تھا کہ یہ مال صرف کمزور مہاجرین پر خرچ کر یں لیکن انہوں نے جنگجوؤں، معزز اور صاحب زبان لوگوں کو یہ مال دینا شروع کر دیا اس لئے میں نے ان سے یہ عہدہ واپس لے کر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح کو دے دیا۔ اس پر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ کہنے لگے کہ اے عمر واللہ میں تمہارا یہ عذر قبول نہیں کرتا آپ نے ایک ایسے گورنر کو معزول کیا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا آپ نے ایک ایسی تلوار کو نیام میں ڈال لیا جس کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونتا تھا آپ نے ایک ایساجھنڈا سرنگوں کر دیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گاڑا تھا آپ نے قطع رحمی کی اور اپنے چچا زاد سے حسد کیا سیدنا عمر نے یہ سب سن کر فرمایا کہ تمہاری ان کے ساتھ زیادہ قریب رشتہ داری ہے یوں بھی تم نوعمر ہوں اور تمہیں اپنے چچا زاد بھائی کے حوالے سے زیادہ غصہ آیا ہوا ہے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15905]