عمران بن حصین ضبی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ بصرہ آئے اس وقت وہاں کے گورنر سیدنا عبداللہ بن عباس تھے وہاں ایک آدمی محل کے سائے میں کھڑا ہوا بار بار یہی کہے جارہا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: وہ اس سے آگے نہیں بڑھتا تھا میں اس کے قریب گیا اور اس سے پوچھا کہ آپ نے اتنی زیادہ مرتبہ کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: اس نے جواب دیا کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں بتاسکتا ہوں میں نے کہا ضرور اس نے کہا پھر بیٹھ جاؤ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فلاں فلاں وقت حاضر ہوا جبکہ آپ مدینہ منورہ میں تھے۔ اس وقت ہمارے قبیلے کے دو سراداروں کا ایک بچہ نکل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا وہ دونوں مجھ سے کہنے لگے کہ وہاں ہمارا ایک بچہ بھی اس آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا ہے تم اس آدمی کے پاس جا کر اس سے ہمارا بچہ واپس دینے کی درخواست کرنا اگر وہ فدیہ لئے بغیر نہ مانے تو فدیہ بھی دیدینا چنانچہ میں مدینہ منورہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قبیلے کے دو سردراوں نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ ان کا جو بچہ آپ کے پاس آگیا ہے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم اس بچے کو جانتے ہو میں نے عرض کیا: کہ میں اس کا نسب نامہ جانتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو بلایا وہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہی بچہ ہے تم اسے اس کے والدین کے پاس لے جا سکتے ہو۔ میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فدیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم آل محمد کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اولاد اسماعیل کی قیمت کھاتے پھریں پھر میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ مجھے قریش کے متعلق خود انہی سے خطرہ ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا مطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم انہیں یہاں دیکھو گے اور عام لوگوں کو ان کے درمیان پاؤ گے جیسے دو حوضوں کے درمیان بکریاں ہوں جو کبھی ادھر جاتی ہیں اور کبھی ادھر جاتی ہیں چنانچہ میں دیکھ رہاہوں کہ کچھ لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہیں میں نے اسی سال سیدنا معاویہ سے ملنے کی اجازت مانگتے ہوئے دیکھا تھا اس وقت مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آگیا۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15904]