الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
3.1. انسان کو وہی توفیق ہے جس کے لیے پیدا کیا گیا
حدیث نمبر: 96
‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَده كِتَابَانِ فَقَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الكتابان فَقُلْنَا لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَدِهِ الْيُمْنَى هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاء آبَائِهِم وقبائلهم ثمَّ أجمل على آخِرهم فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي فِي شِمَالِهِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاء آبَائِهِم وقبائلهم ثمَّ أجمل على آخِرهم فَلَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا فَقَالَ أَصْحَابُهُ فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ فَقَالَ سَدِّدُوا وَقَارِبُوا فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ -[36]- ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ فَنَبَذَهُمَا ثُمَّ قَالَ فَرَغَ رَبُّكُمْ مِنَ الْعِبَادِ فريق فِي الْجنَّة وفريق فِي السعير» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيح
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں، آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ دو کتابیں کیا ہیں؟ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب تک آپ نہ بتائیں، ہم نہیں جانتے، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے ہے، اس میں جنتیوں، ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر ان کے آخر پر پورا حساب کر دیا گیا ہے لہذا ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے اس میں جہنمیوں، ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر ان کے آخر پر پورا حساب کر دیا گیا ہے لہذا اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ تو آپ کے صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر عمل کس لیے کرنا ہے؟ آپ نے فرمایا: میانہ روی سے درست اعمال کرتے رہو، کیونکہ جنتی شخص سے آخری عمل جنتیوں والا کرایا جائے گا، اگرچہ پہلے اس نے کیسے بھی عمل کیے ہوں، اور جہنمی سے آخری عمل جہنمیوں والا کرایا جائے گا، خواہ اس سے پہلے اس نے کیسے بھی عمل کیے ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے وہ کتابیں رکھ کر فرمایا: تمہارا رب بندوں (کے معاملے) سے فارغ ہو چکا، پس ایک گروہ جنت میں اور ایک گروہ جہنم میں جائے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 96]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (2141 وقال: ھذا حديث حسن صحيح غريب .)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   جامع الترمذيكتاب من رب العالمين فيه أسماء أهل الجنة وأسماء آبائهم وقبائلهم ثم أجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم أبدا ثم قال للذي في شماله هذا كتاب من رب العالمين فيه أسماء أهل النار وأسماء آبائهم وقبائلهم ثم أجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم أبدا فق
   مشكوة المصابيحاتدرون ما هذان الكتابان فقلنا لا يا رسول الله إلا ان تخبرنا فقال للذي في يده اليمنى هذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل الجنة واسماء آبائهم وقبائلهم ثم اجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولا ينقص منهم ابدا ثم قال للذي في شماله

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 96 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 96  
تخریج:
[سنن ترمذي 2141]

تحقیق الحدیث:
اس حدیث کی سند حسن ہے۔
◈ اسے احمد بن حنبل [167/2 ح 6563] نسائی [السنن الكبريٰ: 11473] ابن ابي عاصم [السنة: 348] عثمان بن سعید الدارمی [الرد على الجهمية: 263] جعفر بن محمد الفریابی [كتاب القدر: 45، 46] بیہقی [كتاب القضاء والقدر: 56، 57] ابوبکر الآجری [الشريعة ص 173، 174 ح 333، 334] اور ابونعيم الاصبهاني [حلية الاولياء 168/5] وغیرہم نے:
«ابوقبيل حي بن هانئ المعافري عن سفي بن ماتع عن عبدلله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه» کی سند سے بیان کیا ہے۔
◈ امام ترمذی نے فرمایا:
«هذا حديث حسن صحيح غريب»
اور اسے عبدالله بن وهب [كتاب القدر: 13] اور ابن جریر [تفسير طبري 5/25] نے:
«ابوقبيل عن شفي عن رجل من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے۔
◈ شفی بن ماتع ثقہ راوی ہیں۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 2813]
◈ ابوقبیل حی بن ہانی کو امام یحییٰ بن معین اور جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے، لہٰذا وہ حسن الحدیث ہیں۔ ان پر بذریعہ ساجی امام یحییٰ بن معین کی طرف منسوب جرح ثابت نہیں ہے۔
مسند امام أحمد کے محققین کا الموسوعۃ الحدیثیہ میں اسے شاذ اور جمہور کے خلاف جرح کی بنیاد پر اس روایت کو إسناده ضعيف کہنا غلط و مردود ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔
➋ ہر آدمی کا اپنے باپ کی طرف منسوب ہونا صحیح ہے۔
➌ ثبوت کے بعد قبائل کی طرف انتساب صحیح ہے۔
➍ دونوں ہاتھوں میں دینی کتابیں پکڑنا صحیح ہے۔
➎ چونکہ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اللہ کی تقدیر میں اس کے بارے میں کیا لکھا ہوا ہے، لہٰذا موت تک ہر لحاظ سے صحیح عقیدے کے ساتھ کتاب و سنت پر عمل کرتے رہنا چاہئیے تاکہ خاتمہ ایمان پر ہو۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 96