الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
2.1. شیطان اور فرشتے کا انسان پر تصرف
حدیث نمبر: 75
‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول:" لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَإِذَا قَالُوا ذَلِك فَقولُوا الله أحد الله الصَّمد لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كفوا أحد ثمَّ ليتفل عَن يسَاره ثَلَاثًا وليستعذ من الشَّيْطَان". رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے حتیٰ کہ یوں بھی کہا جائے گا: اس مخلوق کو تو اللہ نے تخلیق کیا، تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہ کہیں تو تم کہنا: اللہ یکتا ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس کی اولاد ہے نہ والدین اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے۔ پھر تین مرتبہ اپنی بائیں جانب تھوک دے، اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اور ہم عمرو بن احوص سے مروی حدیث ان شاءاللہ باب خطبۃ یوم النحر میں ذکر کریں گے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 75]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (4723، 4721) واللفظ مرکب [والنسائي في الکبري (10497، وعمل اليوم والليلة:661) ]
حديث عمرو بن الأحوص يأتي (2670)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح البخارييأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا من خلق كذا حتى يقول من خلق ربك فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته
   صحيح مسلميأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا وكذا حتى يقول له من خلق ربك فإذا بلغ ذلك فليستعذ بالله ولينته
   صحيح مسلملا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله
   صحيح مسلمهذا الله فمن خلق الله قال فبينا أنا في المسجد إذ جاءني ناس من الأعراب فقالوا يا أبا هريرة هذا الله فمن خلق الله قال فأخذ حصى بكفه فرماهم ثم قال قوموا قوموا صدق خليلي
   صحيح مسلمليسألنكم الناس عن كل شيء حتى يقولوا الله خلق كل شيء فمن خلقه
   صحيح مسلملا يزال الناس يسألونكم عن العلم حتى يقولوا هذا الله خلقنا فمن خلق الله قال وهو آخذ بيد رجل فقال صدق الله ورسوله قد سألني اثنان وهذا الثالث أو قال سألني واحد وهذا الثاني
   سنن أبي داودلا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله
   سنن أبي داودإذا قالوا ذلك فقولوا الله أحد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد
   صحيفة همام بن منبهلا تزالون تستفتون حتى يقول أحدكم هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله
   مشكوة المصابيحاتي الشيطان احدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته
   مشكوة المصابيحا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله؟ فمن وجد من ذلك شيئا فليقل: آمنت بالله ورسله
   مشكوة المصابيح لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال: هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله؟ فإذا قالوا ذلك فقولوا الله احد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد ثم ليتفل عن يساره ثلاثا وليستعذ من الشيطان
   مسندالحميدي

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 75 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 75  
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند حسن (لذاتہ) ہے۔
اسے نسائی [الكبريٰ: 10497، عمل اليوم والليلة: 661] ابن السنی [627 دوسرا نسخه: 628] ابن ابی عاصم [السنة: 653 دوسرا نسخه: 665] اور ابن عبدالبر [التمهيد 7؍146 من حديث ابي داود] نے «محمد بن إسحاق بن يسار: حدثني عتبة بن مسلم مولىٰ بني تيم عن أبى سلمة بن عبدالرحمٰن عن أبى هريرة رضي الله عنه» کی سند سے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ابوداود نے اسے (4722 مختصر) روایت کیا ہے۔
◈ محمد بن اسحاق بن یسار اگر سماع کی تصریح کریں تو صدوق حسن الحدیث ہیں، خواہ احکام ہوں یا تاریخ ومغازی۔
راقم الحروف نے ان کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ہے۔ نیز دیکھئے: [الحديث حضرو: 71 ص18۔ 43]
◈ عتبہ بن مسلم سے لے کر آخر تک سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ شیطانی وسوسوں پر انسان کا کنٹرول نہیں ہے، اگر ایسے وسوسے اس کے دل میں آئیں تو اسے چاہئے کہ فوراً اللہ سے دعا کرے کہ وہ اسے شیطان مردود کے وسوسوں سے بچائے۔ اسے بائیں طرف تھتکارنا بھی چاہئے تاکہ اس شیطانی وسوسے کا اثر زائل ہو جائے۔
➋ فضول سوالات سے مکمل اجتناب کرنا چاہئیے۔
➌ سیدنا عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:
تمہارا خون، تمہارے مال اور عزتیں تم پر اس طرح حرام ہیں، جیسے آج (حج اکبر) کا دن اس شہر (مکہ) میں حرام ہے۔ خبردار! جو شخص بھی ظلم کرتا ہے تو وہ صرف اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے اور کوئی بیٹا اپنے باپ کے بدلے یا باپ اپنے بیٹے کے بدلے میں پکڑا نہ جائے گا۔ خبردار! شیطان مایوس ہو گیا ہے، کیونکہ اس شہر میں اس کی عبادت کبھی نہیں کی جائے گی، لیکن اس کی پیروی کرنے والے لوگ ہوں گے جو ان اعمال میں اس کی پیروی کریں گے جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو۔ پس وہ شیطان ان حقیر اعمال (چھوٹے گناہوں) پر بھی خوش ہو گا۔ [مشكوٰة المصابيح: 2670، ابن ماجه: 3055 والترمذي: 2159 وصححه وسنده حسن]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 75   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 65  
´شیطانی وسوسہ پراللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خلق كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ " . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض لوگوں کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے کہ (مثلاً آسمان کو) کس نے پیدا کیا اور (زمین کو) کس نے پیدا کیا، یہاں تک کہ وہ یہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا جب وہ اس درجہ تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگے اور اس سے باز رہے یعنی ایسے خیال کو دل سے دور کر دے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 65]
تخریج:
[صحيح بخاري 3276]،
[صحيح مسلم 345]

فقہ الحدیث:
➊ دلوں میں برے وسوسے ڈالنے والا شیطان ہے۔
➋ برے خیالات سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی «اعوذ بالله» پڑھے، استغفار کرے اور دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف طاری کرے۔
➌ برے خیالات سے بچنے کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے، ورنہ عین ممکن ہے کہ یہ خیالات انسان کو کفر، شرک اور گناہ کی طرف پھیر دیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 65   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 66  
´شیطانی وسوسہ پراللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ: آمَنت بِاللَّه وَرُسُله " . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ لوگ پوچھ گچھ کرتے رہیں گے یہاں تک ان سے یہ کہا جائے گا کہ جب تمام مخلوقات کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ پس جو شخص اس قسم کا وسوسہ اپنے دل میں پائے تو اسے «امنت باالله ورسله» کہنا چاہیے یعنی میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 66]
تخریج:
[صحيح بخاري 3276]،
[صحيح مسلم 343]

فقہ الحدیث:
➊ شیطانی سوالات اور غلط وسوسوں سے اپنے آپ کو ہر ممکن طریقے سے بچانا چاہئیے۔
➋ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔
➌ ایمان کی کمزوری کی بنا پر شیطانی وسوسوں کا حملہ ہوتا ہے، لہٰذا راسخ العقیدہ والایمان مسلمان بندے کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل رہنا چاہئیے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 66   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3276  
´کفریہ اور برے خیالات و وساوس آئیں تو اسے فوراً شیطان سے پناہ پکڑنی چاہئیے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ، فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا مَنْ خَلَقَ كَذَا حَتَّى، يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، شیطانی خیال کو چھوڑ دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3276]
فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ جب انسان کو اس طرح کے کفریہ اور برے خیالات و وساوس آئیں تو اسے فوراً شیطان سے پناہ پکڑنی چاہئیے۔ اس کے لیے یہ کلمات کہے جا سکتے ہیں: «اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ» .
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 82   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1187  
1187- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: لوگ ایک دوسرے سے مسلسل سوالات کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ وہ یہ کہیں گے اللہ تعالیٰ نے، تو ہر چیز کو پیدا کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب یہ صورتحال در پیش ہو، تو آدمی یہ کہے: میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1187]
فائدہ:
ایک دوسرے سے شرعی سوالات کرنا درست ہے، لیکن ایسے سوالات جو انسان کو کفر تک پہنچا دیں، ان کا کرنا درست نہیں ہے، اللہ رب العزت خالق ہیں، اور قرآن مجید اس کی صفت اور کلام ہے، باقی سب اس کی مخلوق ہیں۔ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی ابتداء ہے اور نہ ہی انتہا ہے، شیطان غلط باتیں زبان سے نکلوا دیتا ہے، اگر بسا اوقات شیطانی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً کہنا چاہیے، «اعوذ بالله من الشيطن الرجيم» اگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق شیطان کوئی وسوسہ ڈال دے تو فورا «آمنا بالله» کہنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1185   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 343  
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے(فضول) سوالات کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ (احمقانہ) سوال بھی ہوگا، اللہ نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے، تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ پس جس کسی کے ذہن میں اس قسم کا سوال پیدا ہو، وہ یہی کہہ کر(بات ختم کر دے) میں اللہ پر ایمان لایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:343]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مطلب یہ ہے کہ مومن کا رویہ ان سوالات اور وساوس کے بارے میں یہ ہونا چاہیے کہ وہ سوال کرنے والے آدمی سے،
یا وسوسہ ڈالنے والے شیطان سے اور اپنے نفس سے کہے،
کہ مجھے اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان کی روشنی نصیب ہوگئی ہے،
اس لیے میرے لیے یہ سوال قابل توجہ اورلائق التفات نہیں ہے۔
جس طرح کسی آنکھوں والے کے لیے یہ سوال قابل غور نہیں ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے یا نہیں؟ وہ روشن ہے یا تاریک؟ کیونکہ جب اللہ اس ہستی کا نام ہے جس کا وجود اس کی ذاتی صفت ہے،
اور تمام موجودات کو وجود بخشنے والا ہے،
کسی کا محتاج نہیں ہے۔
اگر اس کے متعلق بھی سوال،
قابل غور ہے تو پھر وہ خالق کہاں رہے گا وہ تو مخلوق اور محتاج ہوگا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 343   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 345  
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور پوچھتا ہے: کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ اس سے سوال کرتا ہے: تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ (پس سوالات کا سلسلہ) جب یہاں تک پہنچے تو وہ اللہ سے پناہ مانگے اور رک جائے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:345]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس قسم کے وسوسے اور سوالات شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور جب شیطان کسی کے دل میں اس قسم کا فضول،
بلکہ احمقانہ سوال ڈالے تو اس کا علاج یہی ہے کہ بندہ شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ چاہے،
اس قسم کے سوالات کو قابل غور نہ سمجھے بلکہ ان سے رک جائے،
کیونکہ اللہ کے بارے میں یہ سوال اس کو کس نے پیدا کیا ہے،
اس کو خالق کے بجائے مخلوق قرار دینا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 345   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3276  
3276. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے: یہ کس نے پیدا کیا؟ وہ کس نے پیدا کیا؟ حتی کہ سوال کرنے لگتا ہے کہ تیرے رب کو کسی نے پیدا کیا؟ لہٰذا جب نوبت یہاں تک آپہنچ جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا چاہیے اور اس شیطانی خیال کو ترک کر دینا چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3276]
حدیث حاشیہ:
شیطان یہ وسوسہ اس طرح ڈالتا ہے کہ دنیا میں سب چیزیں علل اور معلولات اور اسباب اور مسببات ہیں یعنی ایک چیز سے دوسری چیز پیدا ہوتی ہے وہ چیز دوسری سے مثلاً بیٹا باپ سے باپ دادا سے، دادا پر دادا سے، اخیر میں انتہا خدا تک ہوتی ہے۔
تو شیطان یہ کہتا ہے پھر خدا کی بھی کوئی علت ہوگی، اس مردود کا جواب أعوذ باللہ پڑھنا ہے۔
اگر خواہ مخواہ عقلی جواب ہی مانگے تو جواب یہ ہے کہ اگر ازل میں برابر علل اور معلولات کا سلسلہ چلا جائے اور کسی علت پر ختم نہ ہو تو پھر لازم آتا ہے کہ مابالعرض بغیر ما بالذات کے موجود ہو اور یہ محال ہے۔
پس معلوم ہوا کہ اس سلسلہ کی انتہا ایک ایسی ذات مقدس پر ہے جو علت محضہ ہے اور وہ کسی کی معلول نہیں اور وہ موجود بالذات ہے اپنے وجود میں کسی کی محتاج نہیں۔
وہی ذات مقدس خدا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ایسے عقلی ڈھکوسلوں میں نہ پڑے اور أعوذ باللہ پڑھ کر اپنے مالک حقیقی سے مدد چاہے۔
وہ شیطان کا وسوسہ دور کردے گا جیسے اس نے خود فرمایا ہے ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ﴾ یعنی اے شیطان! میرے خاص بندوں پر تیری کوئی دلیل نہیں چل سکے گی۔
صدق اللہ تبارك و تعالیٰ
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3276   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3276  
3276. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے: یہ کس نے پیدا کیا؟ وہ کس نے پیدا کیا؟ حتی کہ سوال کرنے لگتا ہے کہ تیرے رب کو کسی نے پیدا کیا؟ لہٰذا جب نوبت یہاں تک آپہنچ جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا چاہیے اور اس شیطانی خیال کو ترک کر دینا چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3276]
حدیث حاشیہ:

شیطانی خیالات دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو دل میں نہیں جمتےاور نہ ان سے کوئی شبہ ہی جنم لیتا ہے۔
ایسے خیالات تو عدم دلچسپی سے ختم ہو جاتے ہیں۔
دوسرےوہ ہیں جو دل میں جم جائیں اور شبہات کا پیش خیمہ ہوں تو ان کا واحد علاج یہ ہے کہ انسان أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے یعنی ایسے خیالات کا علاج صرف اللہ کی پناہ ہے۔
اس کی طاقت ہی سے ایسے خیالات سے بچاؤ حاصل کیا جا سکتا ہے وہی اس قسم کے شیطانی وسوسے دور کر سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ﴾ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔
(الحجر: 15۔
42)


اس حدیث سے ایک دوسری شیطانی کارستانی کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مسببات کے چکر میں ڈال کر اولاد آدم کو گمراہ کرتا ہے کہ آخر کار اللہ تعالیٰ کے ظہور کی کوئی علت یا سبب ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی پاک ذات ہے جو کسی کی معلول نہیں بلکہ وہ موجود بالذات ہے وہ اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3276