عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ثقیف، بنو عُقیل کے حلیف تھے، ثقیف (قبیلے) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو صحابی قید کر لیے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بنو عقیل کا ایک آدمی قید کر لیا اور اسے باندھ کر پتھریلی زمین پر پھینک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو اس نے آپ کو آواز دی: محمد! محمد! مجھے کس لیے پکڑا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کے بدلہ میں۔ “ آپ نے اسے اس کے حال پر چھوڑا اور آگے چل دیے، اس نے پھر آواز دی، محمد! محمد! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر ترس آ گیا اور واپس تشریف لا کر فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس وقت کہتے جب کہ تم اپنے معاملے کے خود مختار تھے تو تم مکمل فلاح پا جاتے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ان دو آدمیوں، جنہیں ثقیف نے قید کر رکھا تھا، کے بدلے میں چھوڑ دیا۔ (یعنی تبادلہ کر لیا) رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3969]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (1641/8)»