قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی سند سے ہمیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر کے روز قریش کے چوبیس سرداروں کے متعلق حکم فرمایا تو انہیں بدر کے ایک بند کنویں میں ڈال دیا گیا جو کہ خبیث اور خبیث بنا دینے والا تھا، اور آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کسی قوم پر غالب آتے تو آپ میدان قتال میں تین راتیں قیام فرماتے، چنانچہ جب بدر میں تیسرا روز ہوا تو آپ نے رخت سفر باندھنے کا حکم فرمایا، سواریاں تیار کر دیں گئیں، پھر آپ چلے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے پیچھے چلنے لگے، حتی کہ آپ اس کنویں کے کنارے، جس میں سردارانِ قریش کی لاشیں پھینکی گئی تھیں، کھڑے ہو گئے اور آپ انہیں ان کے اور ان کے آباء کے نام لیکر پکارنے لگے: ”ٖفلاں بن فلاں! فلاں بن فلاں! اور تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے، چنانچہ ہمارے رب نے جس چیز کا ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے تو اسے سچ پا لیا، تمہارے رب نے جس چیز کا تم سے وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچا پایا؟“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ مردہ جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں تم اسے ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ “ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ”تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دیتے۔ “ بخاری، مسلم۔ اور امام بخاری ؒ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے انہیں زندہ کر دیا حتی کہ باعث توبیخ و تحقیر، انتقام و حسرت اور ندامت، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنا دی۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3967]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3976 و الرواية الثانية: 1270) و مسلم (2875/78)»