سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو اپنی موت کے بعد اپنے مال و حسنات میں جن کا ثواب پہنچتا رہتا ہے، ان میں سے ایک علم ہے جو اس نے سکھایا اور اسے نشر کیا، (دوسرا) نیک اولاد جو اس نے چھوڑی، یا قرآن مجید جو اس نے کسی کو عطیہ کیا، یا مسجد ہے جو اس نے بنائی یا مسافر خانہ ہے جو اس نے بنایا، یا نہر ہے جو اس نے جاری کی یا وہ صدقہ ہے جو اس نے اپنی صحت و حیات میں اپنے مال سے کیا، پس یہ وہ اعمال ہیں جن کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی اسے پہنچتا رہتا ہے۔ “اس حدیث کو ابن ماجہ نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 254]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (242) والبيھقي في شعب الإيمان (3448) [و صححه ابن خزيمة (2490) و للحديث شواھد معنوية] ٭ الوليد بن مسلم کان يدلس تدليس التسوية و لم يصرح بالسماع المسلسل و مرزوق بن أبي الھذيل ضعفه الجمھور .»
يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته علما علمه ونشره ولدا صالحا تركه مصحفا ورثه مسجدا بناه بيتا لابن السبيل بناه نهرا أجراه صدقة أخرجها من ماله في صحته وحياته يلحقه من بعد موته
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 254
تحقيق الحديث: اس کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اسے امام ابن خزیمہ [4؍121 ح2490] نے روایت کیا، یعنی صحیح قرار دیا ہے لیکن مرزوق بن ابی الہذیل الثقفی الدمشقی کے بارے میں محدثین کرام کا اختلاف ہے۔ ◄ دحیم، ابوحاتم الرازی اور ابن خزیمہ نے اس کی توثیق کی ہے اور حافظ منذری نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے، جبکہ بخاری، ابن حبان، عقیلی، ابن عدی، ابن الجوزی اور ابن حجر العسقلانی وغیرہم نے اس پر جرح کی ہے، لہٰذا جمہور کے نزدیک مضعّف ہونے کی وجہ سے وہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔ ◄ حافظ ذہبی نے مرزوق مذکور کو اپنی کتاب [ديوان الضعفاء والمتروكين 2؍352 ت4075] میں ذکر کیا اور ابن حبان سے نقل کیا کہ «ينفرد عن الزهري بالمناكير» وہ زہری سے منکر روایتوں کے ساتھ منفرد ہوتا ہے۔ ◄ روایت مذکورہ بھی «مرزوق: حدثنا الزهري» کی سند سے ہے، جبکہ دوسری طرف امام دحیم نے مرزوق کو زہری سے صحیح الحدیث قرار دیا، لیکن جمہور کو ترجیح کی وجہ سے جرح راجح ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث242
´لوگوں کو خیر و بھلائی سکھانے والے کا ثواب۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا۔“[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 242]
اردو حاشہ: (1) بعض محققین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: (التعلق الرغیب: 1؍58، 57) و (ارواء الغلیل: 6؍29)
(2) اس حدیث میں بطور مثال چند اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو کسی کی وفات کے بعد بھی گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا باعث بنتے رہتے ہیں، گویا اس کا عمل اب بھی جاری ہے۔
(3) حدیث میں مذکور تمام اعمال ایسے ہیں جو فوت ہونے والے نے اپنی زندگی میں خود کیے تھے، بعد میں کسی کی طرف سے قرآن پڑھنا یا نماز ادا کرنا اس میں شامل نہیں۔
(4) صدقہ وہی افضل ہے جو انسان اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں کیے جانے والے دوسرے اخراجات کا حال ہے۔ جب کوئی شخص شدید بیمار ہو جائے اور محسوس ہو کہ اب آخری وقت قریب ہے اس وقت صدقہ خیرات کرنا یا اس کی وصیت کرنا وہ مقام نہیں رکھتا۔ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: جو صدقہ تو اس وقت کرے جب تو تندرست ہو، مال سے محبت رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور تونگری کی امید رکھتا ہو، اور اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق میں آ پہنچے، پھر تو کہے کہ فلاں کو اتنا اور فلاں کو اتنا دینا۔ اب تو وہ مال انہی کا ہو چکا۔ (صحيح البخاري، الزكاة، باب: فضل صدقة الشحيح الصحيح، حديث: 1419)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 242