سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کے بارے میں اختلاف و جھگڑا کرنا کفر ہے۔ “ اس حدیث کو احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 236]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (2/ 286 ح 7835، 2/ 503 ح 10546) و أبو داود (4603) [و صححه ابن حبان (الموارد: 73) والحاکم (2/ 223) ووافقه الذهبي .] »
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 236
تحقیق الحدیث: اس کی سند حسن ہے۔ ◄ اسے ابن حبان [73] حاکم [2؍223 ح2882] اور ذہبی تینوں نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے راوی محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ «مراء»(جھگڑے) سے مراد شک و شبہے کی بنیاد پر قرآن مجید کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنا یا آیات کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر کتاب اللہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے۔ ➋ قرآن مجید کے بارے میں شک کرنا کفر ہے۔ ➌ آیات قرآنیہ کو باہم ٹکرانا اور ساقط قرار دینا کفر اور حرام ہے، لہٰذا اہل اسلام کو ایسی حرکتوں سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔ ➍ جو شخص قرآن مجید کے فہم کے لئے احادیث صحیحہ، آثار صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کی طرف رجوع کرتا ہے، وہ اللہ کے فضل و کرم سے ہر قسم کے کفر، گمراہی، بدعات اور غلطیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ➎ جس طرح قرآن کو قرآن سے ٹکرانا کفر اور حرام ہے، اسی طرح احادیث صحیحہ کو بھی قرآن سے ٹکرانا حرام اور باطل ہے۔ ➏ دنیا کے تمام کفار اور گمراہوں (مبتدعین، ضالّین، مضلّین) کی دو قسمیں ہیں: ① قرآن مجید کے کلام ہونے کے بارے میں شک اور انکار کرتے ہیں۔ ② قرآن کو قرآن سے یا احادیث صحیحہ کو قرآن سے ٹکرا کر دین اسلام کا انکار کر کے کفر اور گمراہیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان لوگوں کے شرک سے محفوظ رکھے۔ «آمين»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4603
´قرآن کے بارے میں جھگڑنے کی ممانعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4603]
فوائد ومسائل: 1۔ (المراء) سے مراد جھگڑنا اور شک کا اظہار کرنا ہے۔ لہذا قرآنی آیات میں ایسا مباحثہ اور جھگڑا کرنا کہ کسی حصے کی تکزیب لازم آئے یا شک وشبہ پیدا ہو حرام اور کفر ہے۔
2۔ قابل حل مقامات کے لیے ثقہ اور راسخ علماء کی طرف رجوع کرکے صحیح معنی ومفہوم معلوم کرنا چاہیے۔ متشابہات کے درپے ہونے سے بچنا ضروری ہے اور جہاں تک ہوسکے شکوک و شبہات اور فتنہ پیدا کرنے والے لوگوں کو واضح دلائل سے قائل کیا جائے اور عوام کو ان سے دور رکھا جائے۔
3۔ مذکورہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جان بوجھ کر لوگوں میں فتنہ انگیزی کرنے والے امت کے لیے خطرناک ہیں۔ اس فتنہ انگیزی کو روکنے کے طریقے یہ ہیں: اہل اہواء سے مقاطعہ۔ ان کی تمام با توں آکر اوٹ پٹانگ معاملات میں الجھنے سے پرہیز، معاشرے میں نفرت پھیلانے والے کاموں سے اجتناب جو فتنہ برپا کرنے والے نہ ہوں غلطیوں پر ان کی پر حکمت تفہیم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4603