سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے حدیث بیان کرتے وقت احتیاط کیا کرو اور صرف وہی حدیث بیان کرو جس کے بارے میں تمہیں علم ہو (کہ یہ میری حدیث ہے)، پس جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ “اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 232]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2951 وقال: حسن .) [و ابن أبي شيبة في مسنده کما في ’’بيان الوهم والايھام‘‘ لابن القطان 5/ 253 ح 2459] ٭ عند الترمذي و ابن أبي شيبة: ’’عبد الأعلٰي الثعلبي‘‘ وھو ضعيف: ضعفه الجمھور و أخطأ ابن القطان فقال: ’’فالحديث صحيح من ھذا الطريق‘‘ و انظر الحديث الآتي (233)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 232
تحقیق الحدیث: اس کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اسے ترمذی، احمد [1؍293 ح2675، 1؍323 ح2974، 1؍327 ح3024]، ابن ابی شیبہ [المصنف 8؍573 ح26244، المسند بحواله بيان الوهم والايهام لابن القطان 5؍253 ح2459]، دارمی [1؍76 ح238]، طحاوی [شرح مشكل الآثار 1؍358 ح392]، طبرانی [المعجم الكبير 12؍35 -36 ح12393]، ابویعلیٰ الموصلی [المسند 4؍228 ح2338، 5؍11۔ ح2721]، بغوی [شرح السنه 1؍ 257 ح117، وقال: هذا حديث حسن] اور قاضی محمد بن سلامہ القضاعی [مسند الشهاب 1؍327 ح554] نے «ابوعوانه الوضاح بن عبدالله اليشكري عن عبدالاعليٰ بن عامر الثعلبي عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنه» کی سند سے روایت کیا ہے۔ ◄ اسے امام ترمذی اور بغوی نے حسن کہا، لیکن یہ سند عبدالاعلیٰ بن عامر کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس (عبدالاعلیٰ) کے بارے میں ہیثمی نے کہا: «والأكثر عليٰ تضعيفه» ”اور اکثر اس کی تضعیف پر ہیں۔“[مجمع الزوائد 1؍147] یعنی اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے اور جسے جمہور محدثین ضعیف قرار دیں وہ ضعیف ہی ہوتا ہے۔ ◄ عبدالاعلیٰ الثعلبی کے بارے میں حافظ ذہبی نے فرمایا: «لين ضعفه أحمد» ”وہ کمزور ہے، اسے احمد (بن حنبل) نے ضعیف قرار دیا۔“[الكاشف 2؍ 130] ◄ امام أحمد نے فرمایا: «عبد الأعليٰ الثعلبي ضعيف الحديث عبدالاعليٰ الثعلبي» ”ضعیف الحدیث ہے۔“[كتاب العلل ومعرفة الرجال 1؍394 فقره: 787] ◄ بطور تنبیہ عرض ہے کہ عبدالوہاب بن ابی عصمہ العکبری (توثیق نامعلوم): «ثنا أحمد بن حميد عن أحمد بن حنبل» کی سند سے عبدالاعلیٰ مذکور کے بارے میں مروی ہے کہ «منكر الحديث عن سعيد بن جبير» یعنی سعید بن جبیر سے وہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ [الكامل لابن عدي 5؍1953] ↰ اس کی سند ابن ابی عصمہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
تنبیہ نمبر ① حافظ ابن القطان الفاسی نے روایت مذکورہ کو مسند ابن ابی شیبہ سے عبدالاعلیٰ کی سند کے ساتھ تقل کر کے کہا: «فالحديث صحيح من هذا الطريق» ”پس اس سند سے حدیث صحیح ہے۔“[بيان الوهم والايهام 5؍253] یہ عجیب وہم ہے، کیونکہ خود ابن القطان نے ایک روایت کو عبدالاعلیٰ الثعلبی کی وجہ سے «لا يصح» یعنی غیر صحیح قرار دیا اور محدثین کرام سے عبدالاعلیٰ مذکور پر جرح نقل کر رکھی ہے۔ دیکھئے: [بيان الوهم والايهام 4؍211 ح1702]
تنبیہ نمبر ② ابن جریر طبری نے کہا: «حدثنا ابن حميد قال: حدثنا جرير عن ليث عن بكر عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: من تكلم فى القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار» ”ہمیں (محمد) بن حمید (الرازی) نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں جریر (بن عبدالحمید) نے حدیث بیان کی، انہوں نے لیث (بن ابی سلیم) سے، اس نے بکر (؟) سے، اس نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (موقوفاً) بیان کیا: جس نے قرآن میں اپنی رائے کے ساتھ کلام کیا تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں تلاش کرے۔“[تفسير طبري ج1 ص27] ◄ اس روایت کی سند تین وجہ سے ضعیف ہے: ➊ محمد بن حمید الرازی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہے۔ ➋ لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھئے: [البدر المنير لابن الملقن 7؍227 خلاصة البدر المنير 78] اور [زوائد ابن ماجه للبوصيري: 208] ➌ بکر کے تعین میں نظر ہے۔ ◄ حسین سلیم اسد (ایک عربی محقق) نے (محمد) ابن حمید (الرازی) کو عبد بن حمید (!) لیث کو لیث بن سعد (!) اور بکر کو بکر بن سوادہ (!) قرار دے کر لکھا ہے: «وهذا إسناد صحيح» ”اور یہ سند صحیح ہے۔“[مسند ابي يعليٰ كا حاشيه 9؍228۔ 229 ح2338] ↰ یہ عجیب وہم ہے اور ضعیف راویوں کی اس سند کو صحیح کہنا تو بلکل غلط ہے۔
فائدہ: «من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار» والی حدیث صحیح بخاری [110] اور صحیح مسلم [3] میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ثابت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے متواتر ہے۔ نیز دیکھئے: [اضواء المصابيح: حديث 233]، [سنن ترمذي 2257]