سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی ایسی چیز سنی، تو اس نے جیسے اسے سنا تھا ویسے ہی اسے آگے پہنچا دیا، کیونکہ بسا اوقات جسے بات پہنچائی جاتی ہے وہ اس کی، اس سننے والے کی نسبت زیادہ حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ “اس حدیث کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 230]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه الترمذي (2657 وقال: حسن صحيح .) و ابن ماجه (232) [و صححه ابن حبان (الموارد: 74. 76) وانظر الحديث السابق (228) ] »
نضر الله امرأ سمع مقالتي فوعاها وحفظها وبلغها رب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ثلاث لا يغل عليهن قلب مسلم إخلاص العمل لله مناصحة أئمة المسلمين لزوم جماعتهم فإن الدعوة تحيط من ورائهم
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 230
تحقیق الحدیث: صحیح ہے۔ دیکھئے حدیث: [اضواء المصابيح: 228 - 229] ◄ سنن دارمی والی روایت میں یحییٰ بن موسیٰ البلخی، ابوسعید عمرو بن محمد العنقزی القرشی الکوفی اور اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی تینوں ثقہ تھے۔ ◄ عبدالرحمٰن بن زبید بن الحارث الیامی کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا اور اس پر امام بخاری کی طرف منسوب جرح منکر الحدیث جو امام بخاری سے ثابت نہیں، لہٰذا عبدالرحمٰن مذکور مجہول الحال ہے۔ ابوالعجلان کو بقول حافظ ابن حجر عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے، لیکن ہمیں یہ حوالہ کتاب الثقات (التاریخ) للعجلی میں نہیں ملا۔ «والله اعلم» ◄ مختصر یہ کہ دارمی والی سند عبدالرحمٰن بن زبید کی جہالت حال وغیرہ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کے صحیح شواہد ہیں، لہٰذا یہ حدیث شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ «والحمد لله»
فائدہ: دارمی والی روایت مذکورہ کو طبرانی نے «اسرائيل عن عبدالرحمٰن بن زبيد» کی سند سے بیان کیا ہے۔ ديكهئے: [جامع المسانيد لابن كثير 13؍652۔ 653 ح11187، وفي المطبوع تصحيف] فقہ الحدیث کے لئے دیکھئے حدیث سنن ترمذی: [2656]
تنبیہ: «نضر الله امرءًا» اور «نضر الله امرأً» دونوں طرح لکھنا صحیح ہے، جبکہ اول الذکر زیادہ فصیح ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث232
´علم دین کے مبلغ کے مناقب و فضائل۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے وہ لوگ جنہیں حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والوں سے زیادہ ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں۔“[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 232]
اردو حاشہ: (1) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نام کے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے احادیث مروی ہیں۔ اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب صرف عبداللہ (صحابی) لکھا ہو تو مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی ہوں گے۔
(2) اس حدیث میں بشارت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد بھی ہر دور میں حفاظ حدیث موجود رہیں گے اگرچہ ان کی تعداد کسی دورمیں بہت زیادہ اور کسی دور میں کم ہو گی۔
(3) حفظ حدیث سے عموماً حدیث کو زبانی یاد رکھنا مراد لیا جاتا ہے لیکن تحریری طور پر حدیث کو محفوظ کر لینا بھی حفظ حدیث میں شامل ہے۔ ائمہ حدیث نے دونوں طرح حدیث کو محفوظ کیا ہے بلکہ صحابہ کرام میں سے متعدد حضرات حدیث تحریری طور پر محفوظ رکھتے تھے اور زبانی بھی یاد کرتے تھے اور روایت کرتے تھے۔ مثلا: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ وغيره۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 232