امام احمد، اور بیہقی نے شعب الایمان میں نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے اور اسی طرح امام ترمذی نے انہی سے روایت کیا ہے، البتہ انہوں نے اس سے مختصر روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 192]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أحمد (4/ 182، 183 ح 17784) والبيهقي في شعب الإيمان (7216) والترمذي (2859 وقال: غريب .) [و صححه الحاکم علٰي شرط مسلم 1/ 73 ووافقه الذهبي .] »
صراطا مستقيما على كنفي الصراط داران لهما أبواب مفتحة على الأبواب ستور وداع يدعو على رأس الصراط وداع يدعو فوقه والله يدعو إلى دار السلام ويهدي من يشاء إلى صراط مستقيم
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 192
فقہ الحدیث مسند أحمد [الموسوعة الحديثيه 181/29، 182ح 17634] وغیرہ میں سیدنا نواس بن سمعان الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ضرب الله مثلا صراطا مستقيما وعليٰ جنبتي صراط سوران فيهما أبواب مفتحة وعلى الأبواب ستور مرخاة وعلى باب الصراط داع يقول: أيها الناس! ادخلوا الصراط جميعا ولا تتفرقوا و داع يدعو من فوق الصراط فإذا أراد أن يفتح شيئا من تلك الأبواب قال: ويحك! لا تفتحه فانك ان تفتحه تلجه، والصراط: الاسلام والسوران: حدود الله والابواب المفتحة محارم الله وذلك الداعي على راس الصراط: كتاب الله والداعي من فوق الصراط: واعظ الله فى قلب كل مسلم .» ”اللہ نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی، راستے کے دونوں طرف دو فصیلیں ہیں جن میں دروازے کھلے ہوئے ہیں اور ہر دروازے پر پردہ لٹکا ہوا ہے۔ ہر دروازے پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے: اے لوگو! تم سارے کے سارے راستے پر داخل ہو جاؤ اور ٹیڑھے راستوں پر نہ مڑو، جب بھی کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی دروازے کا پردہ کھولنا چاہتا ہے تو راستے کے اوپر سے بلانے والا کہتا ہے: تیری خرابی ہو! اسے نہ کھول، اگر تو نے اسے کھول دیا تو اندر داخل ہو جائے گا۔ راستہ اسلام ہے فصیلیں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ راستے پر آواز دینے والا قرآن ہے اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا اللہ کا واعظ ہے جو ہر مسلمان کے دل میں ہے۔“ اس حدیث کی سند حسن ہے اور شواہد کے ساتھ یہ صحیح ہے۔ اسے حاکم [73/1] نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2859
´اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مثال کا بیان۔` نواس بن سمعان کلابی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال دی ہے، اس صراط مستقیم کے دونوں جانب دو گھر ہیں، ان گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ایک پکارنے والا اس راستے کے سرے پر کھڑا پکار رہا ہے، اور دوسرا پکارنے والا اوپر سے پکار رہا ہے، (پھر آپ نے یہ آیت پڑھی) «والله يدعوا إلى دار السلام ويهدي من يشاء إلى صراط مستقيم»”اللہ تعالیٰ دارالسلام (جنت کی طرف) بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ”صراط مستقیم“ کی ہدایت دیتا ہے“، تو وہ دروازے جو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الأمثال/حدیث: 2859]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی محرمات مثلاً زنا اور شراب وغیرہ، ان محرمات میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں پڑ سکتا جب تک خود سے بڑھ کر ان کا ارتکاب نہ کرنے لگے، اور ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہو جائے گا۔
2؎: ا س حدیث میں ”صراط مستقیم“ سے مراد اسلام ہے، اور ”کھلے ہوئے دروازوں“ سے مراد اللہ کے محارم ہیں اور ”لٹکے ہوئے پردے“ اللہ کی حدود ہیں، اور ”راستے کے سرے پر بلانے والا داعی“ قرآن ہے، اور ”اس کے اوپر سے پکار نے والا داعی“ مومن کا دل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2859