تحقیق الحدیث اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
اس روایت کی سند میں ایک راوی سلیمان بن سفیان المدنی ضعیف ہے۔ دیکھئے:
[تقريب التهذيب 2563] ابن معین، علی بن المدینی، ابوحاتم الرازی اور نسائی وغیرھم جمہور نے اس پر جرح کی ہے۔
فائدہ: حاکم نیشا بوری نے کہا:
«حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ بَالَوَيْهِ، ثنا مُوسَى بْنُ هَارُونَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ ابْنُ مَيْمُونَ الْعَدَنِيُّ وَكَانَ يُسَمَّى قُرَيْشَ الْيَمَنِ وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْمُجْتَهِدِينَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَدَّثَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ“» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔
[المستدرك ج 1 ص116 ح399 وسنده صحيح، ورواه الترمذي: 2166 مختصرا] * المستدرک کے مطبوعہ نسخے میں
«قالت» ہے
(!) جس کی اصلاح
[اتحاف المهرة 7؍297 ح7848] اور مستدرک کے مخطوط مصور یعنی قلمی نسخے
[ج1 ص50، 49] سے کر دی ہے۔
«والحمد لله» ◄ اس حدیث میں طاؤس، عبداللہ بن طاؤس، عبدالرزاق بن ہمام اور عباس بن عبدالعظیم مشہور ثقہ راوی ہیں جن کے حالات تقریب التہذیب وغیرہ میں موجود ہیں۔
◄ ابراہیم بن میمون الصنعانی العدنی کو امام ابن معین اور حافظ ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔ دیکھئے:
[الجرح و التعديل 2 135، 136 وسنده صحيح و ثقات ابن حبان 64/8] ◄ حافظ ابن حجر نے کہا:
«ثقه» [تقريب التهذيب: 262] ◄ موسی بن ہارون البز از مشہور ثقہ امام تھے۔ دیکھئے:
[سير اعلام النبلاء 12 116، 117] ◄ محمد بن أحمد بن بالویہ الجلاب النیسابوری رحمہ اللہ کی حدیث کو حاکم نے صحیح کہا۔ دیکھئے:
[المستدرك 240/2، 241 ح2946، وقال: صدوق 211/1ح 765] ◄ حافظ ذہبی نے انہیں اعیان محدثین اور اپنے علاقے کے رؤساء میں ذکر کیا۔ دیکھئے:
[تاريخ الاسلام 194/25] آپ 340ھ میں فوت ہوئے۔
◄ نیز دیکھئے: تاریخ نیشاپورطبقتہ شیوخ الحاکم
[ص342 فقره: 552] اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ
(علی صاحبھا الصلوة والسلام) کا اجماع شرعی حجت ہے۔
◄ اگر کوئی کہے: امت کے اجماع سے مراد یہ ہے کہ جب قیامت کے دن ساری امت اکٹھی ہو گی تو اس کا اجماع ہے۔! اس کا جواب یہ ہے کہ پھر اس اجماع کا کیا فائدہ ہے؟ دوسرے یہ کہ اس قائل کے قول سے معلوم ہوا کہ اس کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ دنیا میں کسی دور میں بھی امت گمراہی پر جمع ہو جائے۔! حالانکہ اس بات کا تصور بھی باطل ہے۔
فائدہ :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ”اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔“ سے معلوم ہوا کہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو بہت سی جماعتیں بنا کر مختلف پارٹیوں، فرقوں، کاغذی تنظیموں اور ٹکڑیوں میں تقسیم ہو جانا جائز ہے۔
◄ عرض ہے کہ اس حدیث کا یہ مفہوم بالکل غلط ہے۔ اس سے مراد صرف تین باتیں ہیں:
➊ اجماع حجت ہے۔
➋ کتاب و سنت اور اجماع کے مطابق صحیح خلافت اور خلیفہ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
➌ نماز باجماعت پڑھنی چاہئیے۔
یہی وہ مفہوم ہے جو سلف صالحین سے ثابت ہے، جبکہ پارٹیوں، مروجہ تنظیموں اور کاغذی جماعتوں کا وجود
«وَلَا تَفَرَّقُوا» اور
«وَلَا تَخْتَلِفُوا» کی رو سے غلط ہے۔