سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بتائیں کہ میں اس کے متعلق آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں، اور ایک روایت میں ہے۔ آپ کے سوا کسی سے نہ پوچھوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کہو میں اللہ پر ایمان لایا۔ پھر ثابت قدم ہو جاؤ۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 15]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (38/ 62)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 15
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 159]
فقہ الحدیث ➊ اس حدیث اور دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ دین اسلام کا اصل اور بنیادی رکن ایمان باللہ ہے۔ اللہ ہی معبود برحق، مشکل کشا، حاجت روا، فریاد رس، حاکم اعلیٰ اور قانون ساز ہے۔ اس کی صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں، یہی وہ عقیدہ توحید ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسول بھیجے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» ”اور یقینا ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا تاکہ تم (ایک) اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچ جاؤ۔“[سورة النحل: 36] طاغوت ہر شیطان، کاہن، جادوگر اور اس معبود باطل کو کہتے ہیں جو اپنی عبادت پر راضی ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب التمیمی رحمہ اللہ (متوفی 1206ھ) فرماتے ہیں: طاغوتوں کے سردار پانچ ہیں: ① شیطان۔ ② ظالم حکمران جو اللہ کے احکام کو بدل دیں۔ ③ جو شخص اللہ کے نازل کردہ دین کے بغیر حکم چلائے اور فیصلے کرے۔ ④ جو شخص اللہ کے بغیر علم غیب کا دعویٰ کر دے۔ ⑤ جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اپنی عبادت پر راضی ہو۔ [رساله معنى الطاغوت وأنواعه/مولفات الامام محمد بن عبدالوهاب ج1 ص377] یاد رہے کہ توحید کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں شروع کر دے آپ کے علم کو حیوانات، پاگلوں اور بچوں کے علم سے تشبیہ دینے لگے۔ معاذ اللہ ایسا آدمی مؤحد نہیں بلکہ ملحد و زندیق ہے۔ ➋ یہ حدیث اس آیت کریمہ کے مطابق ہے جس میں ارشاد ہے: «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ» ”جن لوگوں نے کہا: اللہ ہمارا رب ہے، پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے نازل ہو کر کہتے ہیں: نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی تمہیں خوشخبری ہو جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا جاتا تھا۔“[حم سجده: 30] نیز دیکھئے: [سورة الاحقاف: 13] ➌ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان دلی تصدیق، زبانی قول اور جسمانی عمل کا نام ہے، لہٰذا یہ حدیث بھی بدعتی فرقے مرجیہ کا رد ہے، جن کا یہ خیال ہے کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں۔ ان بدعتیوں کے نزدیک ایمان صرف زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے۔ ➍ یہاں استقامت اور ثابت قدمی سے شرک و کفر اور تمام منہیات سے کلی اجتناب اور تمام ظاہری و باطنی طاعات (اعمال صالحہ) پر عمل مراد ہے۔ ◈ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «ثم استقاموا فلم يلتفتوا إلى إله غيره»”پھر وہ ثابت قدم رہے، پس انہوں نے اللہ کے سوا کسی الٰہ (معبود) کی طرف دیکھا تک نہیں۔“[تفسير طبري، ج24، ص73 وسنده صحيح] ◈ مفسر قرآن قتادہ بن دعامہ (تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «استقاموا على طاعة الله»”وہ اللہ کی اطاعت پر ثابت قدم رہے۔“[تفسير عبدالرزاق: 2706 وسنده صحيح] ➎ اس حدیث کی بعض سندوں میں یہ اضافہ ہے کہ سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے بارے میں کس چیز کا آپ کو سب سے زیادہ خوف ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: ”یہ“ یعنی اس زبان کا خوف سب سے زیادہ ہے۔ [سنن الترمذي: 2410 وقال: هذا حديث حسن صحيح، شعب الايمان للبيهقي: 4919 والزهري صرح بالسماع عنده] اصول حدیث میں یہ بات مقرر ہے کہ ثقہ کی زیادت مقبول ہوتی ہے۔ ایک صحیح روایت میں کچھ الفاظ نہ ہوں اور دوسری صحیح میں موجود ہوں تو دونوں روایتوں کو ملا کر ہی مسئلہ سمجھنا اور حجت ماننا چاہئیے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3972
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔` سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو: اللہ میرا رب (معبود برحق) ہے اور پھر اس پر قائم رہو“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو ہم پر کس بات کا زیادہ ڈر ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ”اس کا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3972]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ایمان پر قائم رہنا اس لیے ضروری ہے کہ جہنم سے نجات صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب انسان کی موت ایمان کی حالت میں آئے۔
(2) زبان سے جس قدر زیادہ گناہ سرزرد ہوتے ہیں اتنے دوسرے اعضاء سے نہیں ہوتے۔ زبان کے گناہ آسانی سے ہوجاتے ہیں۔
(4) معاشرے میں زبان کے گناہوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی دوسرے گناہوں کو۔
(5) زبان کے گناہوں کے اثرات زیادہ شدید ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں اوربہت سے گناہ سرزرد ہوتے ہیں مثلاً: قتل وغارت وغیرہ اس لیے زبان کے بارے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3972
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 159
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی (تسلّی بخش) بات بتائیے کہ پھر آپ کے بعد مجھے کسی سے اسلام کے متعلق سوال نہ کرنا پڑے (ابو اسامہؒ کی روایت میں بَعْدَكَ کی بجائے غَيْرَكَ آپ کے سوا ہے) آپؐ نے ارشاد فرمایا: ”اٰمنتُ باللہ (میں اللہ پر ایمان لایا) کہہ کر اس پر پُختگی کے ساتھ قائم رہو یا جم جاؤ۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:159]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: آمنتُ بالله: یہ ایک عہدوپیمان ہے جس کا معنی ہے، میں نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم ہر ہدایت کو دل و جان سے مان لیا اور دین اسلام پر عمل کرنے کی ذمہ داری کو قبول کر لیا۔ استقامت: استحکام و پختگی اور مضبوطی، جم جانا، ڈٹ جانا، استقلال و پامردی دکھانا، اس لیے استقامت کا تقاضا ہے کہ انسان اس اقرار اور معاہدے سے انحراف اختیار کیے بغیر زندگی بھر اسلام کے احکام کی پابندی اور التزام کرے، ہر قسم کے گرم، سرد حالات، کڑے سے کڑے اور مشکل سے مشکل مرحلہ میں اس کے پائے استقامت میں ضعف و انحلال نہ آئیں اور کسی مرحلہ پر بھی اس کے پاؤں نہ ڈگمگائیں۔ اس لیے امام ابو القاسم قشیری نے لکھا ہے: کہ استقامت درجہ ہے، جس کے نتیجہ میں تمام کام، کامل طریقہ پر سر انجام پاتے ہیں، تمام نیکیاں اور بھلائیاں وجود میں آتی ہیں، جس شخص میں استقامت و استقلال نہ ہو اس کی ہر کوشش رائیگاں جاتی ہے۔ (شرح مسلم نووی: 1/48)