سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس جب اس (آگ) نے اپنے اردگرد کو روشن کر دیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے حشرات وغیرہ اس میں گرنا شروع ہو گئے، اور وہ شخص انہیں روکنے لگا لیکن وہ بزور اس میں گرنے لگے، پس میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں جبکہ تم بزور اسی میں گر رہے ہو۔ “ یہ بخاری کی روایت ہے اور مسلم کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور تمہاری مثال اس طرح ہے کہ میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا رہا ہوں، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ، لیکن تم مجھ سے بزور اس میں گر رہے ہو۔ “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 149]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6483) و مسلم (18 / 2284)»
مثلي ومثل الناس كمثل رجل استوقد نارا فلما أضاءت ما حوله جعل الفراش وهذه الدواب التي تقع في النار يقعن فيها فجعل ينزعهن ويغلبنه فيقتحمن فيها فأنا آخذ بحجزكم عن النار وهم يقتحمون فيها
مثلي كمثل رجل استوقد نارا فلما أضاءت ما حولها جعل الفراش وهذه الدواب التي يقعن في النار يقعن فيها وجعل يحجزهن ويغلبنه فيتقحمن فيها فذاك مثلي ومثلكم أنا آخذ بحجزكم عن النار هلم عن النار هلم عن النار فتغلبوني تقحمون فيها
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 149
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 6483]، [صحيح مسلم 5955]
فقہ الحدیث: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے۔ ➋ صرف دین اسلام پر عمل کرنے میں ہی پوری انسانیت کی نجات ہے۔ ➌ مناسب مثالوں کے ذریعے سے اپنی بات سمجھانا جائز ہے۔ ➍ ثقہ راوی کی زیادت (روایت میں اضافہ) حجت ہے۔ ➎ اگر ایک صحیح روایت میں کچھ الفاظ زیادہ ہوں اور دوسری روایت میں وہ الفاظ موجود نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے، اضافے کا ہی اعتبار کرنا چاہئیے۔ ➏ حدیث حجت ہے۔ ➐ خبر واحد حجت ہے۔
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 4
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو جہنم کی آگ سے بچاتے ہیں` «. . .قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهَا جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي يَقَعْنَ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا، وَجَعَلَ يَحْجُزُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَتَقَحَّمْنَ فِيهَا، فَذَاكَ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ، أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، هَلُمَّ عَنِ النَّارِ، هَلُمَّ عَنِ النَّارِ، فَتَغْلِبُونِي تَقَحَّمُونَ فِيهَا .» ”رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مثال ایسے شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی ہو۔ پھر جب اطراف کی چیزیں روشن ہو جاتی ہیں تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ میں گرا کرتے ہیں، اس میں گرنے لگے ہوں، اور وہ شخص ان کو روکنے لگتا ہے لیکن وہ اس (شخص) پر غالب آ جاتے ہیں اور آگ میں گرنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس میری اور تمہاری مثال یہی ہے، میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر آگ سے بچانا چاہتا ہوں (اور پکار پکار کر کہتا ہوں کہ) آگ سے بچو، آگ سے بچ جاؤ، مگر تم مجھ پر غالب آ جاتے ہو اور آگ میں گھستے ہی چلے جاتے ہو۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق: 4]
شرح الحدیث: نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم کى رافت و رحمت: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی تمنا اور کوشش تھی کہ اپنی امت کو جہنم سے بچا لیں۔ اسی لیے ان کے سامنے ہر گناہ والا اور جہنم میں لے جانے والا عمل واضح کر دیا تاکہ وہ (امت) جہنم سے بچ جائیں۔ اسی بات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ اس طرح فرمایا: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ»[التوبة: 128] ”(مسلمانو!) تمہارے لیے تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں جن پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے، تمہاری ہدایت کے بڑے خواہشمند ہیں، مومنوں کے لیے نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔“ معلوم ہوا کہ نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی صفت ہے کہ آپ پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے امت مسلمہ کو تکلیف پہنچتی ہے، اور یہ بھی آپ کی صفت ہے کہ آپ دل سے تمنا کرتے ہیں کہ آپ کی امت جہنم میں نہ ڈالی جائے، اور یہ بھی تمنا کرتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی طرف اپنی امت کی رہنمائی کر دیں۔ اور آپ کی صفات عالیہ میں سے ہے کہ آپ مومنوں کے لیے بہت ہی رحمدل ہیں، اسی وجہ سے چاہتے ہیں کہ وہ عمل صالح کریں، اور گناہوں کا ارتکاب نہ کریں تاکہ اللہ کی جنت کے حقدار بنیں۔
ابن العربی فرماتے ہیں: ”معروف قول ہے کہ جب پروانہ اندھیرے میں اچانک روشنی دیکھتا ہے تو چراغ سے روشنی حاصل کرنے کا گمان کرکے اس چراغ کی طرف بڑھتا ہے اور آخرکار وہ جل جاتا ہے۔“[عارضة الاحوذي: 325/10]
فاسد عقیدہ جہنم میں لے جاتا ہے: ”اسی طرح لوگوں کی مثال ہے کہ توحید کے علاوہ جب کوئی فاسد عقیدہ اور فتنہ دیکھتے ہیں تو اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، اور درحقیقت اس فاسد عقیدہ میں مبتلا ہو کر بالآخر جہنم میں چلے جاتے ہیں۔“[عارضة الاحوذي: 325/10]
امام غزالی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”انسان فاسد العقیدہ ہونے کی حالت میں جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ آگ میں جانے والے کیڑے مکوڑے ایک ہی دفعہ جل کر ختم ہو جاتے ہیں، جبکہ انسان اپنی خواہشات نفس کی اتباع کر کے ہمیشہ کی آگ میں چلا جاتا ہے جہاں سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔ لہذا اب اگر انسان اپنی خواہشات نفس کی اتباع کرے تو وہ جانوروں سے بھی زیادہ جاہل ہے۔“[ارشاد الساري: 403/5]
چنانچہ قرآن مجید میں ہے: «لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ»[الأعراف: 179] ”ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“
فتح الباری [319/11] میں اس حدیث کو اچھے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ ا”س حدیث میں آگ سے مراد شریعت کی بیان کردہ حدود اور گناہ کے امور ہیں جو کہ مشرق و مغرب تک پہنچی اور وہاں روشنی کی، لیکن لوگ بجائے اس کے کہ اس آگ سے بچتے، حدود نہ پھلانگتے اور معاصی میں واقع نہ ہوتے، انہوں نے اس امر کا خیال ہی نہ کیا اور حدود کو پھلانگ دیا اور معاصی میں واقع ہو گئے، جب کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے بارہا منع کیا، گویا آپ لوگوں کو ان کی پیٹھوں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانا چاہتے ہیں، جب کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں سن رہے اور آخر وہ آگ میں گر ہی پڑے۔ جیسا کہ آدمی آگ اپنے انتفاع کے لیے جلاتا ہے اور لوگوں کے نفع کے لیے بھی، لیکن پروانے اس میں گر پڑتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاصی اور حدود تو بیان کی تھیں کہ لوگ نہ حدود پھلانگیں اور نہ معاصی میں واقع ہوں، لیکن لوگ گناہوں میں گر پڑے، اور حدود اللہ کو بھی پھلانگ دیا، اور جہنم کی آگ میں گر پڑے۔“ انتہى ملحضاً
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 4
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1068
1068- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میری اور لوگوں کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے، جو آگ جلاتا ہے جب اس کے آس پاس کا حصہ روشن ہوجاتا ہے، تو پتنگے وغیرہ اس آگ کی طرح لپکتے ہیں، تو میں تم لوگوں کو کمر سے پکڑ کر آگ سے بچاتا ہوں اور تم لوگ اس میں گرنے کی کوشش کرتے رہتے ہو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1068]
فائدہ: اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ساتھ شفقت ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح لوگوں کو جہنم سے بچانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور کائنات کے قیمتی ترین لوگ بن گئے اور بدقسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرایا، آپ کے مشن کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر دیں، وہ دنیا میں بھی ذلیل بنے اور آخرت میں بھی جہنم ان کا مقدر ہوگا، اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی حمایت کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1067
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5955
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس میری مثال اور میری اُمت کی مثال یعنی ہماری تمثیل اس آدمی کی مثال ہے، جس نے آگ جلائی تو پتنگے اور پروانے اس میں گرنے لگے، سو میں تمھیں کمروں سے پکڑرہا ہوں اورتم اس میں چھلانگیں لگارہے ہو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5955]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) دواب: دابة کی جمع ہے، آگ میں گرنے والے پتنگے اور کیڑے، فراش، روشنی اور آگ پر فریفتہ پروانے، حجز، حجزه کی جمع ہے، کمر، چادر باندھنے کی جگہ۔ (2) تقحمون: تم بلا سوچے سمجھے اس میں گھس رہے ہو، اس میں چھلانگیں لگا رہے ہو۔ فوائد ومسائل: خواہشات نفس جو انسان کی تباہی اور بربادی کا باعث ہیں، انسان پروانوں کی طرح ان میں گرفتار ہو رہے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری وضاحت کے ساتھ ان کے نقصانات کو بیان کر کے امت کو ان سے بچانے کی کوشش فرمائی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5955
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6483
6483. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: میری مثال اور لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔ جب اس کے چاروں طرف روشنی پھیل گئی تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ سے دور کرتا ہے لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آتے بلکہ آگ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح میں تمہاری کمروں کو پکڑ کر آگ سے دور رکھتا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6483]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان بشارت دینے والے کے بجائے ڈرانے والے کا زیادہ محتاج ہے کیونکہ خوشخبری کی طرف مائل ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے لیکن ہلاکت سے بچانے کے لیے اس کی رہنمائی ضروری ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی بہت فکر تھی اور آپ اس کے لیے بہت شفیق اور مہربان تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تمہارے پاس ایسا رسول آیا ہے جو تمہاری قوم کا ہے۔ اس پر تمہاری مصیبت بہت گراں گزرتی ہے۔ تمہارے متعلق بہت حریص اور خاص طور اہل ایمان پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ “(التوبة: 128/9) لیکن افراد امت کی حالت یہ ہے کہ وہ زبردستی جہنم میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (فتح الباري: 386/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6483