سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہ (اہل مدینہ) کھجوروں کی پیوندکاری کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: ”تم کیا کرتے ہو؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم ایسے ہی کرتے آ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم (پیوندکاری) نہ کرو تو شاید تمہارے لیے بہتر ہو۔ “ انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا تو اس سے پیداوار کم ہو گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے اس کے متعلق آپ سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایک انسان ہوں، جب میں تمہیں تمہارے دین کے کسی معاملے کے بارے میں تمہیں حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو، اور جب میں اپنی رائے سے کسی چیز کے متعلق تمہیں کوئی حکم دوں تو میں ایک انسان ہوں۔ “ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 147]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (140 / 2362)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 147
تخریج الحدیث: [صحيح مسلم 6127]
فقہ الحدیث : ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں، صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اس کی صفت خاصہ ہے۔ ➋ دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ حدیث حجت ہے۔ ➌ امت مسلمہ میں بڑے سے بڑا عالم ہو یا مجتہد اس کی ہر رائے اور ہر اجتہاد پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ ➍ تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ ➑ بعض دنیاوی علوم کا معلوم نہ ہونا علو شان کے منافی نہیں ہے۔ ➏ دنیاوی امور میں لوگوں کو اختیار ہے جس طرح چاہیں کریں بشرطیکہ ان کا عمل کسی دینی حکم کے مخالف نہ ہو۔ ➐ سیدہ عائشہ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: «أنتم أعلم بأمر دنياكم» ”تم دنیاوی امور زیادہ جانتے ہو۔“[صحيح مسلم: 2363، دارالسلام: 6128] ➑ اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے، لہٰذا کسی مجتہد کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ ➒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کا نور ہونے کے باوجود بشر ہیں۔ ➓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں ہیں ورنہ پھر مدینہ تشریف لانے کا کیا مطلب ہے؟
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6127
حضرت نافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں ، اللہ کے نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ نر کھجوروں کا بور مادہ کھجوروں کے اوپر ڈالتے، آپﷺ نے پوچھا، ”تم کیا کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا، ہم پہلے سے کرتے آرہے ہیں، آپ نے فرمایا: ”شاید، اگر تم یہ عمل نہ کرو تو بہتر ہو۔“ انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ جھڑ گئیں، صحابہ کرام نے اس کا تذکرہ آپ سے کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: ”میں صرف بشر ہوں۔“جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کچھ کہوں تے اس کو اختیار کرو،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6127]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يأبرون (ف-ض) اور يوبرون: نر کا بور مادہ پر ڈالتے تھے۔ (2) تلقيح کا معنی ایک ہی ہے۔ (3) نفضت: پھل جھڑ گیا۔ فوائد ومسائل: حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، اہل مدینہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت، نر کھجور کے شگوفے کے بور کو مادہ کھجور کے شگوفے میں داخل کرتے تھے اور رافع بن خدیج کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، یہ ان کا ہمیشہ کا عمل تھا اور تجربہ پر مبنی تھا، لیکن چونکہ آپ کو اس کا تجربہ نہیں تھا، اس لیے آپ نے خیال کیا، اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے، یہ سن کو صحابہ کرام نے یہ عمل ترک کر دیا تو جب آپ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا، اگر تجربہ کی رو سے یہ سود مند ہے تو انہیں یہ کام جاری رکھنا چاہیے، میں نے یہ کوئی حکم نہیں دیا، میں نے تو محض ایک خیال کا اظہار کیا تھا، میرے گمان کی پابندی ضروری نہیں ہے تو اس سے معلوم ہوا، آپ نے کوئی حکم نہیں دیا تھا یا فیصلہ نہیں کیا تھا، ایک تجربہ سے تعلق رکھنے والی چیز کے بارے میں محض اپنی رائے یا گمان کا اظہار کیا تھا، اس لیے اس حدیث سے یہ کشید کرنا کہ دنیوی امور و معاملات میں آپ کے حکم کی پابندی ضروری نہیں ہے، محض سینہ زوری ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ آپ کے ہر حکم اور فیصلہ کی پابندی ضروری ہے اور یہاں آپ نے حکم نہیں دیا تھا، بلکہ آپ نے فرما دیا تھا، اگر یہ کام نفع بخش ہے تو جاری رکھو، میں نے تو محض ایک خیال کا اظہار کیا تھا، جس کے تم پابند نہیں ہو، اس طرح آپ نے خود ہی اجازت دے دی۔