229/299(صحيح) عن عمرو بن العاص قال: بعث إلي النبي صلى الله عليه وسلم فأمرني أن آخذ علي ثيابي وسلاحي، ثم آتيه، ففعلتْ، فأتيته وهو يتوضأ، فصعد إليّ البصر ثم طأطأ، ثم قال:" يا عمرو! إني أريد أن أبعثك على جيش، فيغنمُك الله وأرغب(1) لك رغبة من المال صالحة". قلت: إني لم أُسلم رغبةً في المال، إنما أسلمتُ رغبة في الإسلام فأكون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال:" يا عمرو! نعم المال الصالح للمرء الصالح".
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس پیغام بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ میں پورا لباس زیب تن کر کے اور ہتھیار پہن کر آپ کے پاس آؤں، چنانچہ میں نے تعمیل کی اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف نظر اٹھائی اور پھر نظر کو جھکا لیا۔ اس کے بعد فرمایا: ”اے عمرو! میں چاہتا ہوں کہ تمہیں ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجوں تو اللہ تمہیں مال غنیمت عطا فرمائے گا اور میں تیرے لیے تیرے حلال مال میں رغبت رکھتا ہوں“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں مال کی طلب میں اسلام نہیں لایا ہوں۔ میں تو اسلام کی طلب میں مسلمان ہوا ہوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہوں گا۔ فرمایا: ”اے عمرو! نیک آدمی کے لیے رزق حلال بہت ہی اچھا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 229]