سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب خیبر کا دن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دشمن کی طرف بھیجا تو وہ بزدل ہو گیا تو محمد بن مسلمہ آیا، کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آج جیسا میں نے کبھی نہیں دیکھا، پھر رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دشمن سے ملاقات کی آرزو نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت اور تندرستی مانگو، تمہیں معلوم نہیں کہ تم ان میں سے کس چیز کے ساتھ آزمائے جاتے ہو، جب تم ان سے ملو تو یوں کہو: «اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبُّنَا وَ رَبُّهُُمْ وَ نَوَاصِيْنَا بِيَدِكَ وَ اِنَّمَا تَقْتُلُهُمْ اَنْتَ»”اے اللہ! تو ہمارا بھی رب ہے اور ان کا بھی، ہماری پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور تو ہی انہیں قتل کرے گا۔“ پھر زمین پر بیٹھ جاؤ، جب وہ آجائیں تو تم اٹھو اور تکبیریں کہو۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کل ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ پیٹھ دے کر بھاگے گا نہیں۔“ جب دوسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور وہ آنکھوں کی بیماری کی شدت میں مبتلا تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چلو۔“ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو اپنے پیروں کی جگہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب لگایا تو ان کے لیے جھنڈا باندھ دیا گیا اور بڑا جھنڈا ان کے حوالے کیا گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کس بات پر لڑائی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ وہ گواہی دیدیں کہ اللہ کے بغیر کسی کی بندگی نہ کریں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ اس طرح کریں تو مجھ سے اپنے خون اور مال بچا لیں گے مگر اس کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہوگا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 590]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 3948، 4367، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3425، 11606، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3341، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3928، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15945، والطبراني فى «الكبير» برقم: 1746، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4286، والطبراني فى «الصغير» برقم: 790 قال الهيثمي: فيه فضيل بن عبد الوهاب قال أبو زرعة شيخ صالح وضعفه البخاري وغيره وبقية رجاله ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (5 / 328)»
لا تمنوا لقاء العدو ، وسلوا الله العافية ، فإنكم لا تدرون ما تبتلون به منهم ، فإذا لقيتموهم ، فقولوا : اللهم ، أنت ربنا وربهم ، ونواصينا بيدك ، وإنما تقتلهم أنت ، ثم الزموا الأرض جلوسا ، فإذا غشوكم فانهضوا وكبروا ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : لأبعثن غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبانه ، لا يولي الدبر ، فلما كان الغد بعث عليا وهو أرمد شديد الرمد ، فقال : سر ، فقال : يا رسول الله ، ما أبصر موضع قدمي ، فتفل فى عينه ، وعقد له اللواء ، ودفع إليه الراية ، فقال على : على ما أقاتل يا رسول الله ؟ ، قال : على أن يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأني رسول الله ، فإذا فعلوا ذلك فقد حقنوا دماءهم وأموالهم إلا بحقها ، وحسابهم على الله عز وجل