عبدہ نے طلحہ بن یحییٰ (بن طلحہ بن عبید اللہ) سے اور انہوں نے اپنے چچا (عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس مؤذن انہیں نماز کے لیے بلانے آیا۔ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: قیامت کے دن مؤذن، لوگوں میں سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے۔“
طلحہ بن یحییٰ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس مؤذن آیا اور ان کو نماز کے لیے بلایا تو معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن مؤذنوں کی گردنیں سب لوگوں سے لمبی ہوں گی۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 852
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مؤذن کو اذان کے لیے بہت مستعد اور چوکس ہونا پڑتا ہے اور سب لوگ اذان سن کر ہی نماز کا اہتمام کرتے ہیں، اس لیے قیامت کو اسے یہ شرف اور اعزاز حاصل ہو گا کہ وہ سب سے ممتاز اور منفرد نظر آئے گا، یا کثرت اجرو ثواب کی بنا پر اس کی گردن بلند ہو گی، تاکہ میدان حشر کے پسینہ سے اس کا چہرہ محفوظ رہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 852
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث725
´اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کا بیان۔` معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 725]
اردو حاشہ: فائده: گردنیں لمبی ہونے سے اس کی سر بلندی اور سرفراززی کی طراف اشارہ ہے اور گردن کا حقیقت میں لمبا ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے اور ظاہری معنی مراد لینا ہی زیادہ قرین صواب ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب دوسرے لوگ پیاس کی وجہ سے پریشان ہوکر سر جھکائے ہوئے ہونگے لیکن مؤذن اس وقت خوش حال اور آسودہ ہوں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 725