زہیر بن حرب، ابو غسان مسمعی، محمد بن مثنیٰ اور ابن بشار نے کہا: ہم سے معاذ بن ہشام نے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے قتادہ اور مطر نے حسن سے، انہوں نے ابو رافع سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب وہ (مرد) اس (عورت) کی چا شاخوں کے درمیان بیٹھے، پھر اس سے مجامعت کرے تو اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔“ مطر کی حدیث میں یہ اضافہ ہے: ”اگرچہ انزال نہ ہو۔“ اور امام مسلم کے اساتذہ میں سے (صرف) زہیر نے شعبہا کی جگہ أشعبہا کہا۔ (دونوں ایک ہی لفظ شعبہ (شاخ) کی جمع ہیں۔)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جب مرد عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے پھر اس کو تھکا دے، یا بھرپور کوشش و محنت کرے تو اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے“ مطر کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ اگرچہ انزال نہ ہو، اور زہیر نے شُعَب کی جگہ أَشعَب کہا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 783
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) شُعَب: شعبَةٌ کی جمع ہے۔ (2) جُلُوسُ بَيْنَ الشُّعَب: کا مقصد: مرد کے عضو تناسل کا عورت کی اندام نہانی میں داخل ہو جانا ہے۔ اور(3) جَهَدَهَا: کا مقصد، میاں بیوی کا تعلقات زن وشوہر کو شروع کر دینا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 783
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 95
´مرد کا عضو مخصوص جب عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو غسل واجب ہو جاتا ہے` «. . . عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا جلس بين شعبها الاربع ثم جهدها، فقد وجب الغسل . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب تم میں سے کوئی عورت کی چار شاخوں کے درمیان میں بیٹھے پھر اپنی پوری کوشش کر لے تو اس پر غسل واجب ہو گیا . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 95]
� لغوی تشریح: «إِذَا جَلَسَ» یعنی جب مرد بیٹھ جائے۔ «بَيْنَ شُعَبِهَا» عورت کی شاخوں میں۔ «شُعَب» «شُعْبَةٌ» کی جمع ہے۔ ”شین“ پر ضمہ اور ”عین“ پر فتحہ ہے۔ درخت کی شاخ کے لیے استعمال ہوتا ہے یا کسی چیز کا کچھ حصہ بھی اس سے مراد لیا جاتا ہے۔ عورت کی چار شاخوں سے مراد اس کے دو بازو اور دو ٹانگیں ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد عورت کے پاؤں اور رانیں ہیں۔ اور یہ بھی قول ہے کہ اس سے عورت کی دونوں پنڈلیاں اور دونوں رانیں مراد ہیں۔ جو بھی مراد ہو مقصود جماع سے کنایہ ہے۔ اور ابوداود کی ایک روایت میں «وَأَلْزَقَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ» بھی مروی ہے۔ ”عضو مخصوص کے عورت کی شرم گاہ سے ملاپ پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔“[سنن أبى داود، الطهارة، باب فى الإكسال، حديث: 21] «ثُمَّ جَهَدَهَا» اس میں کنایہ ہے مرد کے عضو مخصوص کے عورت کی شرم گاہ میں دخول سے۔
فوائد و مسائل: ➊ مرد کا عضو مخصوص جب عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے خواہ حشفہ ہی غائب ہو ایسی صورت میں غسل واجب ہو جاتا ہے۔ ➋ خلفائے اربعہ اور ائمہ اربعہ کے علاوہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ الله علیہم کا بھی یہی مذہب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 95
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 216
´خواہ انزال ہو یا نہ، غسل واجب ہو گا` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا قَعَدَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ وَأَلْزَقَ الْخِتَانَ بِالْخِتَانِ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مرد عورت کی چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھے اور مرد کا ختنہ عورت کے ختنہ سے مل جائے تو غسل واجب ہو گیا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 216]
فوائد و مسائل: ➊ اس صورت میں خواہ انزال ہو یا نہ، غسل واجب ہو گا۔ ➋ فقہاء و محدثین «اتصال ختان» کا معنی یہ مراد لیتے ہیں کہ حشفہ غائب ہو جائے۔ [ابن ماجه، باب ماجاء فى وجوب الغسل اذاالتقى الختانان، حديث: 611وجامع الترمذى، حديث: 108]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 216
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 291
´جب دونوں ختان ایک دوسرے سے مل جائیں تو غسل جنابت واجب ہے` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ، ثُمَّ جَهَدَهَا فَقَدْ وَجَبَ الْغَسْلُ "، تَابَعَهُ عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَهُ، وَقَالَ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ مِثْلَهُ . . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مرد عورت کے چہار زانو میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ جماع کے لیے کوشش کی تو غسل واجب ہو گیا، اس حدیث کی متابعت عمرو نے شعبہ کے واسطہ سے کی ہے اور موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بصری نے بیان کیا۔ اسی حدیث کی طرح۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا یہ حدیث اس باب کی تمام احادیث میں عمدہ اور بہتر ہے اور ہم نے دوسری حدیث (عثمان اور ابن ابی کعب کی) صحابہ کے اختلاف کے پیش نظر بیان کی اور غسل میں احتیاط زیادہ ہے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ:: 291]
� تشریح: «قال النووي ”معنى الحديث ان ايجاب الغسل لايتوقف على الانزال بل متي غابت الحشفة فى الفرج وجب الغسل عليها و لاخلاف فيه اليوم.“» امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ غسل انزال منی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ جب بھی دخول ہو گیا دونوں پر غسل واجب ہو گیا۔ اور اب اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یہ طریقہ مناسب نہیں: فقہی مسالک میں کوئی مسلک اگر کسی جزئی میں کسی حدیث سے مطابق ہو جائے تو قابل قبول ہے۔ کیونکہ اصل معمول بہ قرآن و حدیث ہے۔ اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمادیا ہے کہ «اذا صح الحديث فهومذهبي.»”جو بھی صحیح حدیث سے ثابت ہو وہی میرا مذہب ہے۔“ یہاں تک درست اور قابل تحسین ہے۔ مگر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ مقلدین اپنے مذہب کو کسی حدیث کے مطابق پاتے ہیں تو اپنے مسلک کو مقدم ظاہر کرتے ہوئے حدیث کو مؤخر کرتے ہیں اور اپنے مسلک کی صحت و اولویت پر اس طرح خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ گویا اولین مقام ان کے مزعومہ مسلک کا ہے اور احادیث کا مقام ان کے بعد ہے۔ ہمارے اس بیان کی تصدیق کے لیے موجودہ تراجم احادیث خاص طور پر تراجم بخاری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جو آج کل ہمارے برادران احناف کی طرف سے شائع ہو رہے ہیں۔
قرآن و حدیث کی عظمت کی پیش نظر یہ طریقہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ جب کہ یہ تسلیم کئے بغیر کسی بھی منصف مزاج کو چارہ نہیں کہ ہمارے مروجہ مسالک بہت بعد کی پیداوار ہیں۔ جن کا قرون راشدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ بقول حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ پورے چار سو سال تک مسلمان صرف مسلمان تھے۔ تقلیدی مذاہب چار صدیوں کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی حقیقت یہی ہے۔ امت کے لیے یہ سب سے بڑی مصیبت ہے کہ ان فقہی مسالک کو علاحدہ علاحدہ دین اور شریعت کا مقام دے دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ افتراق و انتشار پیدا ہوا کہ اسلام مختلف پارٹیوں اور بہت سے فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا اور وحدت ملی ختم ہو گئی۔ اور آج تک یہی حال ہے۔ جس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔
دعوت اہل حدیث کا خلاصہ یہی ہے کہ اس انتشار کو ختم کر کے مسلمانوں کو صرف اسلام کے نام پر جمع کیا جائے، امید قوی ہے کہ ضرور یہ دعوت اپنا رنگ لائے گی۔ اور لا رہی ہے کہ اکثر روشن دماغ مسلمان ان خود ساختہ پابندیوں کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 291
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 191
´مرد و عورت کے ختنے مل جانے پر غسل کے واجب ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مرد، اس (عورت) کے چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھے، پھر کوشش کرے تو غسل واجب ہو جاتا ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 191]
191۔ اردو حاشیہ: «إِذَا جَلَسَ……… الخ» یہ الفاظ کنایہ ہیں جماع سے، یعنی جب مرد جماع شروع کر دے اور دخول ہو جائے، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ تو دونوں میاں بیوی پر غسل واجب ہو جاتا ہے، انزال (منی کا خروج) ہو یا نہ ہو کیونکہ جماع دخول کا نام ہے، نہ کہ انزال کا۔ حد کا تعلق بھی دخول سے ہے، انزال سے نہیں۔ انزال تو مخفی چیز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 191
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 192
´مرد و عورت کے ختنے مل جانے پر غسل کے واجب ہونے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مرد عورت کی چاروں شاخوں کے بیچ بیٹھے، پھر کوشش کرے، تو غسل واجب ہو گیا۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اشعث کا ابن سیرین کے طریق سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ اشعث نے اسے بواسطہ حسن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، نیز یہ حدیث بواسطہ شعبہ نضر بن شمیل وغیرہ سے بھی مروی ہے جیسا کہ اسے خالد نے روایت کی ہے، یعنی: بطریق «قتادة عن الحسن، عن أبي رافع، عن أبي هريرة» ۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 192]
192۔ اردو حاشیہ: خالد سے مروی سابقہ حدیث میں حسن بصری کا واسطہ ہے جب کہ اس حدیث میں ان کے بجائے ابن سیرین کا ذکر ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ تنبیہ فرما رہے ہیں کہ اس حدیث میں ابن سیرین کا ذکر درست نہیں، یہاں ”حسن“ ہونا چاہیے کیونکہ اسے روایت: 191 کی متابعت حاصل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 192
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث610
´مرد اور عورت کی شرمگاہیں مل جانے پر غسل کا وجوب۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مرد عورت کے چار زانوؤں کے درمیان بیٹھے، پھر مجامعت کرے، تو غسل واجب ہو گیا۔“[سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 610]
اردو حاشہ: چار شاخوں کے درمیان بیٹھنے سے مراد عورت کے قریب جانا اور کوشش سے مراد دخول کا عمل انجام دینا ہے، یعنی غسل واجب ہونے کے لیے انزال شرط نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 610
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:291
291. حضرت ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”جب مرد، عورت کے چاروں اعضاء کے درمیان بیٹھ جائے، پھر کوشش شروع کر دے تو غسل واجب ہو جائے گا۔“ اس حدیث کی متابعت عمرو بن مرزوق نے بواسطہ شعبہ (عن قتادہ) کی ہے۔ اور موسیٰ نے کہا: ہم سے ابان نے حدیث بیان کی، انھوں نے قتادہ سے بیان کی، قتادہ نے حضرت حسن سے یہی روایت بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:291]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کے بیان کردہ عنوان بڑے خاموش اور ٹھوس ہوتے ہیں، ان سے امام بخاری ؒ کی مراد کو سمجھنا آسان نہیں۔ انھوں نے مذکورہ بالا عنوان میں کوئی حکم بیان نہیں کیا۔ اس کی تعیین پیش کردہ حدیث پر غور و فکر کرنے کے بعد ہو گی۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب مرد اپنی عورت کے دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر عمل شروع کرے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس حدیث میں انزال کا ذکر نہیں، بلکہ کوشش کرنے کا ہے۔ گویا محض بیٹھنے سے بھی غسل واجب نہیں ہو گا، بلکہ اس کا انحصار جہد (کوشش) پر ہے جو دخول سے کنایہ ہے۔ دخول کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ اس وضاحت سے امام بخاری ؒ کے عنوان کی تعیین ہو جاتی ہے، کیونکہ مرد کے ختان کا عورت کے ختان سے التقاء غیوبت حشفہ کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ ختان اس مقام کا نام ہے، جہاں کٹاؤ ہوتا ہے اور عورت کے ختان کا مقام ذرا نیچے ہوتا ہے۔ عورت کے ختان کو خفاض کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں، عرب میں عورتوں کا ختنہ کیا جاتا ہے اور شادی سے پہلے کم ازکم دو تین مرتبہ ختنہ کرنا پڑتا ہے، اگرایسا نہ کیا جائے تو اس مقام پر محض کپڑے کی رگڑ سے شہوانی جذبات کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ افریقہ کے بعض دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ختنہ کے بجائے اس مقام پر ٹانکے لگا دیے جاتے ہیں۔ تاکہ شادی ہونے تک عورت کی عزت و ناموس محفوظ رہے، اسے”عفت اجباری“ کانام دیا جاتا ہے، شادی کے وقت ٹانکے کھول کر عورت کو خاوند کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ اس مسئلے کی مزید وضاحت فرماتی ہیں۔ ان کی بیان کردہ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب مرد کا ختنہ عورت کے ختنے کے مقام میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 216) ترمذی کی روایت میں ہے کہ میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے وظیفہ زوجیت ادا کیا، پھر ہم دونوں نے غسل کیا۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 108) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ غسل جنابت میں مہاجرین اور انصارکے درمیان اختلاف ہوا تو میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور عرض کیا: اماں جان!میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے حیا آتی ہے، انھوں نے فرمایا: پوچھو! میں تیری حقیقی ماں کی طرح ہوں، میں نے دریافت کیا کہ غسل کب واجب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنا دیا کہ جب خاوند اپنی بیوی کے چاروں اعضاء کے درمیان بیٹھ جائے اور مرد کا ختنہ عورت کے ختنے سے لگ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 785۔ (349) رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ!ایک آدمی اپنی بیوی سے ہمبسترہوتا ہے، لیکن اسے انزال نہیں ہوتا کیا، ایسی حالت میں بیوی خاوند کو غسل کرنا ہو گا؟ حضرت عائشہ ؓ بھی آپ کے پاس بیٹھی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اور یہ دونوں ایسا کرتے ہیں پھر غسل بھی کرتے ہیں۔ “(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 786۔ (350) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غسل جنابت کے لیے انزال شرط نہیں، بلکہ دخول ہی کافی ہے۔ اولاً یہی امام بخاری ؒ کا موقف ہے، اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ باب میں کریں گے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ بعض اوقات کسی حدیث کے الفاظ کو عنوان میں رکھ دیتے ہیں، چونکہ وہ ان کی شرط کے مطابق نہیں ہوتی، اس کی طرف اس انداز سے اشارہ کر دیتے ہیں۔ مذکورہ عنوان کے الفاظ امام بیہقی نے بیان کیے ہیں کہ جب خاوند بیوی کے ختنے آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ امام شافعی ؒ نے بھی حضرت عائشہ ؓ سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے، لیکن ان کی بیان کردہ روایت میں ایک راوی علی بن زید ضعیف ہے۔ البتہ ابن ماجہ میں بیان شدہ حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔ (فتح الباري: 513/1) 3۔ عمرو بن مرزوق نے شعبہ سے بیان کرنے میں ہشام کی متابعت کی ہے، جسے فوائد عثمان بن احمد السماک میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ پھر موسیٰ کی تعلیق کو اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ قتادہ گو ثقہ راوی ہیں مگر ان پر تدلیس کا الزام ہے اور مذکورہ روایت کو انھوں نے "عن" سے بیان کیا ہے اور مدلس راوی کا کسی روایت کو عن سے بیان کرنا قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے امام بخاری ؒ کو اس متابعت میں تحدیث کی تصریح نقل کرنی پڑی۔ (فتح الباري: 513/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 291