الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْحَيْضِ
حیض کے احکام و مسائل
21. باب إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ:
21. باب: پانی سے غسل صرف (منی کے) پانی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 779
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: " سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الرَّجُلِ يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ، ثُمَّ يُكْسِلُ، فَقَالَ: يَغْسِلُ مَا أَصَابَهُ مِنَ الْمَرْأَةِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، وَيُصَلِّي ".
حماد اور ابو معاویہ نےہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنےوالد سے، انہوں نے ابو ایوب سے، انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مرد کے بارے میں پوچھا جو اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے، پھر اسے انزال نہیں ہوتا۔ تو آپ نے فرمایا: بیوی سے اسے جو کچھ لگ جائے اس کو دھو ڈالے، پھر وضو کر کے نماز پڑھ لے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس انسان کے بارے میں پوچھا، جو اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے، پھر اسے انزال نہیں ہوتا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوی سے اسے جو کچھ لگ جائے، اس کو دھو لے، پھر وضو کر کے نماز پڑھ لے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 346
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخارييغسل ما مس المرأة منه ثم يتوضأ ويصلي
   صحيح مسلميغسل ما أصابه من المرأة ثم يتوضأ ويصلي
   صحيح مسلميغسل ذكره ويتوضأ

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 779 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 779  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اقحاط:
اور اكسال دونوں سے مراد عدم انزال ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 779   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 293  
´اس چیز کا دھونا جو عورت کی شرمگاہ سے لگ جائے ضروری ہے`
«. . . حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَلَمْ يُنْزِلْ؟ قَالَ: " يَغْسِلُ مَا مَسَّ الْمَرْأَةَ مِنْهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي "، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْغَسْلُ أَحْوَطُ وَذَاكَ الْآخِرُ، وَإِنَّمَا بَيَّنَّا لِاخْتِلَافِهِمْ . . . .»
. . . ہم سے یحییٰ نے ہشام بن عروہ سے، کہا مجھے خبر دی میرے والد نے، کہا مجھے خبر دی ابوایوب نے، کہا مجھے خبر دی ابی بن کعب نے کہ انھوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! جب مرد عورت سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت سے جو کچھ اسے لگ گیا اسے دھو لے پھر وضو کرے اور نماز پڑھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا غسل میں زیادہ احتیاط ہے اور یہ آخری احادیث ہم نے اس لیے بیان کر دیں (تاکہ معلوم ہو جائے کہ) اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور پانی (سے غسل کر لینا ہی) زیادہ پاک کرنے والا ہے۔ (نوٹ: یہ اجازت ابتداء اسلام میں تھی بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ غَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنْ فَرْجِ الْمَرْأَةِ:: 293]
تشریح:
یعنی غسل کر لینا بہرصورت بہتر ہے۔ اگر بالفرض واجب نہ بھی ہو تو یہی فائدہ کیا کم ہے کہ اس سے بدن کی صفائی ہو جاتی ہے۔ مگر جمہور کا یہی فتویٰ ہے کہ عورت مرد کے ملاپ سے غسل واجب ہو جاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ دخول کی وجہ سے ذکر میں عورت کی فرج سے جو تری لگ گئی ہو اسے دھونے کا حکم دیا۔

«قال ابن حجر فى الفتح وقدذهب الجمهور الي ان حديث الاكتفاءبالوضوء منسوخ وروي ابن ابي شيبة وغيره عن ابن عباس انه حمل حديث الماءمن الماءعلي صورة مخصوصة مايقع من روية الجماع وهى تاويل يجمع بين الحديثين بلاتعارض.»
یعنی علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ جمہور اس طرف گئے ہیں کہ یہ احادیث جن میں وضو کو کافی کہا گیا ہے یہ منسوخ ہیں۔ اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ «حديث الماءمن الماء» خواب سے متعلق ہے۔ جس میں جماع دیکھا گیا ہو، اس میں انزال نہ ہو تو وضو کافی ہو گا۔ اس طرح دونوں قسم کی حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے اور کوئی تعارض نہیں باقی رہتا۔

لفظ جنابت کی لغوی تحقیق سے متعلق حضرت نواب صدیق حسن صاحب فرماتے ہیں:
«وجنب درمصفي گفته مادئه جنب دلالت بربعد ميكند وچوں جماع درمواضع بعيده دمستوره ميشود الخ»
یعنی لفظ «جنب» کے متعلق مصفی شرح مؤطا میں کہا گیا ہے کہ اس لفظ کا مادہ دور ہونے پر دلالت کرتا ہے جماع بھی پوشیدہ اور لوگوں سے دور جگہ پر کیا جاتا ہے، اس لیے اس شخص کو جنبی کہا گیا، اور جنب کو جماع پر بولا گیا۔ بقول ایک جماعت جنبی تا غسل عبادت سے دور ہو جاتا ہے اس لیے اسے جنب کہا گیا۔ غسل جنابت شریعت ابراہیمی میں ایک سنت قدیمہ ہے جسے اسلام میں فرض اور واجب قرار دیا گیا۔ جمعہ کے دن غسل کرنا پچھنا لگوا کر غسل کرنا، میت کو نہلا کر غسل کرنا مسنون ہے۔ رواہ داؤد والحاکم

جو شخص اسلام قبول کرے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے غسل کرے پھر مسلمان ہو۔ [مسك الختام، شرح بلوغ المرام، جلداول، ص: 170]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 293   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 293  
´جب مرد عورت سے جماع کرے اور انزال نہ ہو`
«. . . أَخْبَرَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَلَمْ يُنْزِلْ؟ قَالَ: " يَغْسِلُ مَا مَسَّ الْمَرْأَةَ مِنْهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي "، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْغَسْلُ أَحْوَطُ وَذَاكَ الْآخِرُ، وَإِنَّمَا بَيَّنَّا لِاخْتِلَافِهِمْ . . . .»
. . . مجھے خبر دی ابی بن کعب نے کہ انھوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! جب مرد عورت سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت سے جو کچھ اسے لگ گیا اسے دھو لے پھر وضو کرے اور نماز پڑھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا غسل میں زیادہ احتیاط ہے اور یہ آخری احادیث ہم نے اس لیے بیان کر دیں (تاکہ معلوم ہو جائے کہ) اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور پانی (سے غسل کر لینا ہی) زیادہ پاک کرنے والا ہے۔ (نوٹ: یہ اجازت ابتداء اسلام میں تھی بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ غَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنْ فَرْجِ الْمَرْأَةِ: 293]
تخريج الحديث:
[197۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 29 باب غسل ما يصيب من فرج المرأة 293، مسلم 346، ابن حبان 1169]
فھم الحدیث: اس سے معلوم ہوا کہ عورت کی شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبت نجس ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھونے کا حکم دیا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 197