حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے حد (لگنے والے کام) کا ارتکاب کر لیا ہے، مجھ پر حد قائم کیجئے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: (تب) نماز کا وقت آ گیا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔جب نماز پڑھ لی تو کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے حد (کے قابل گناہ) کا ارتکاب کیا ہے، میرے بارے میں اللہ کی کتاب کا (جو) فیصلہ (ہے اسے) نافذ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوا؟" اس نے عرض کی: ہاں، فرمایا: "تیرا گناہ بخش دیا گیا ہے۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے آپ مجھ پر حد قائم کریں اور نماز کا وقت ہو گیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب اس نے نماز ادا کر لی کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے گناہ کیا ہے، مجھ پر اللہ کا قانون (حکم) جاری فرمائیں، آپ نے پوچھا،" کیا تو ہمارے ساتھ نماز میں موجود تھا؟" اس نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا:" تجھے بخشا جا چکا ہے۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7006
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس پر علماء امت کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی انسان ایسے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، جس پر حد مقرر ہے اور وہ گناہ شہادت یا اقرار سے ثابت ہوتا ہے تو اس پر حد لگانا ضروری ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اس گناہ کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور گناہ گار بھی اس کا اعتراف نہیں کرتا تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہو جاتا ہے، بعض روایات میں زنا کرنے کا ذکر ہے تا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زناکے محرکات و دواعی یا اس کی پیش خیمہ کو زنا سمجھ لیا یا اس کے أصبحت حدا، میں حد کو پہنچ گیا، کہنے سے راوی نے، زنا سمجھ لیا، کیونکہ اگر اس نے صراحتا زنا کا اقرارواعتراف کرلیا تھا تو پھر اس سے وضاحت طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اصل صورتحال کیا ہے، کیونکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہو سکتا ہے، محض نماز پڑھنے سے معاف نہیں ہو سکتا، الایہ کہ نماز کی دعاؤں میں اللهم اغفرلی کو عام کر لیا جائے، اس کو توبہ پر مشتمل مان لیا جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7006
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6823
6823. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کے پاس تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کہا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو چکی ہے، آپ اسے مجھ پر جاری فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق مزید پوچھ گچھ نہیں کی۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا تو اس شخص نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص آپ کے پاس گیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے، آپ کتاب اللہ کے مطابق اسے مجھ پر جاری کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: ہاں پڑھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے تیرا گناہ معاف کر دیا ہے، یا فرمایا: ”تیری حد معاف کر دی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6823]
حدیث حاشیہ: غیرواضح اقرار پر آپ نے اس کو یہ بشارت پیش فرمائی آج بھی یہ بشارت قائم ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے سامنے گول مول بیان کرے کہ میں نے حدی جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے۔ تشریح: بعضوں نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ اگر کوئی حدی گناہ کر کے توبہ کرتا ہوا امام یا حاکم کے سامنے آئے تو اس پر سے حد ساقط ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6823
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6823
6823. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کے پاس تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کہا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو چکی ہے، آپ اسے مجھ پر جاری فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق مزید پوچھ گچھ نہیں کی۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا تو اس شخص نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص آپ کے پاس گیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے، آپ کتاب اللہ کے مطابق اسے مجھ پر جاری کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: ہاں پڑھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے تیرا گناہ معاف کر دیا ہے، یا فرمایا: ”تیری حد معاف کر دی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6823]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اس واقعے کے علاوہ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ آدمی نے کسی عورت سے بوس وکنار کیا تھا اور اس واقعے میں ہے کہ اس نے کوئی قابل حد عمل کیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ دو واقعات ہیں اور انھوں نے ان واقعات سے دو الگ الگ حکم ثابت کیے ہیں۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مبہم طریقے سے حد کا اعتراف کرتا ہے تو قاضی کو چاہیے کہ اس پر پردہ ڈالے، اس کی کرید نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا تجسس ہے جس کے متعلق قرآن نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس واقعے کی مزید تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم گھر سے نماز کے ارادے سے نکلے تھے تو تم نے اچھی طرح وضو کیا تھا، پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز باجماعت ادا کی تو ان کاموں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھاری حد یا تمھارے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔ “(صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 7007(2765) امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق لوگوں کے تین موقف لکھے ہیں: ٭جرم کے واضح اعتراف اور غیر مبہم تعین کے بعد واجب ہوتی ہے جبکہ اقرار کرنے والا بار بار اس کا اصرار بھی کرے۔ ٭مذکورہ واقعہ صرف اسی شخص کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی اس سے مطلع کیا گیا تھا۔ ٭حد کا عمل کرنے کے بعد (معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے) اگر توبہ کرلی جائے تو اس کی بدولت حد ساقط ہو جاتی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس آخری موقف کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباري: 165/12) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی غیر واضح بیان دے کہ میں نے حد والا جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ گناہوں کی بخشش کی بشارت بھی دی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6823